Karnataka Caste Census: A Turning Point for Social Justiceکرناٹک کی ذات پات مردم شماری: سماجی انصاف کا نیا موڑ

کرناٹک کی ذات پات پر مبنی مردم شماری رپورٹ 

 ایک عہد ساز موڑ پر کھڑا سماجی انصاف کا معرکہ

از : عبدالحلیم منصور 

“سچائی وہ آئینہ ہے جو اکثر طاقتوروں کو چبھتا ہے

کرناٹک کی سرزمین آج ایک ایسی تاریخی بحث کا مرکز بنی ہوئی ہے، جو نہ صرف ریاست بلکہ پورے ہندوستان کے سماجی تانے بانے کو جھنجھوڑ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ 2015 میں مکمل ہونے والی ذات پات پر مبنی سماجی و تعلیمی مردم شماری، جو برسوں تک سرکاری فائلوں میں دفن رہی، بالآخر ریاستی کابینہ میں پیش کی گئی ہے۔ تاہم، اس کے عملی نفاذ کی راہ میں سیاسی مصلحتیں اور طبقاتی دباؤ آج بھی سماجی انصاف کے متوالوں کے لیے رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔یہ رپورٹ محض اعداد و شمار کا ایک مجموعہ نہیں، بلکہ ریاست کے سماجی ڈھانچے کا وہ آئینہ ہے، جو ہمیں حقیقی طبقاتی، تعلیمی، معاشی اور سیاسی خدوخال سے روشناس کراسکتا ہے۔ رپورٹ پیش کیے جانے کے بعد بعض وزراء نے اس کی سفارشات پر مزید غور کے لیے مہلت طلب کی، جس کے پیشِ نظر 17 اپریل کو ایک خصوصی کابینہ اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق، رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ کرناٹک میں درج فہرست ذاتیں (SCs)، درج فہرست قبائل (STs) اور دیگر پسماندہ طبقات (OBCs) کی مجموعی آبادی تقریباً 75 فیصد بنتی ہے، جب کہ مسلمانوں کی آبادی ریاست میں دوسرے نمبر پر ہے۔ یہ اعداد و شمار ریاست میں رائج ریزرویشن پالیسی پر نئے سوالات کھڑے کرتے ہیں اور سماجی انصاف کی نئی جہتوں کی نشان دہی کرتے ہیں وہ سچ جسے برسوں سے ریاست کے بااثر طبقات چھپاتے آئے ہیں۔یہ مردم شماری اپریل تا مئی 2015 کے درمیان کی گئی، جس میں 1.35 کروڑ خاندانوں میں سے 94.17 فیصد، یعنی تقریباً 5.98 کروڑ افراد کی تفصیلات جمع کی گئیں۔ سروے میں ذات، تعلیم، پیشہ، آمدنی، سیاسی وابستگی، جائیداد کی ملکیت سمیت 54 نکات شامل تھے۔رپورٹ کی تیاری میں ممتاز ماہرین شریک رہے، جن میں پروفیسر جوگن شنکر، پروفیسر عبدالعزیز، ڈاکٹر امبروز پنٹو، ڈاکٹر سی ایم لکشمن، لکشمی پتی اور آئی آئی ایم بنگلور کے نوین بھارتی شامل ہیں۔ رپورٹ کی سائنسی جانچ آئی آئی ایم بنگلور نے کی، جس نے اسے 2011 کی مردم شماری سے ہم آہنگ قرار دیتے ہوئے اس کی معتبریت پر مہر ثبت کی۔

سروے کے مجموعی اخراجات میں مرکزی حکومت کی جانب سے 7 کروڑ روپے اور ریاستی حکومت کی جانب سے 185.79 کروڑ روپے مختص کیے گئے، جن میں سے 165.51 کروڑ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔رپورٹ کو ڈیجیٹلائز کرنے کیلۓ 43.09 کروڑ روپے خرچ کئے گئے۔ رپورٹ کی تاخیر کی ایک بڑی وجہ 2019 میں کمیشن کے چیئرمین ایچ کانت راج کی مدتِ کار کا اختتام بھی رہا، جس کے بعد اس رپورٹ کو سرکاری طور پر پیش نہیں کیا گیا۔

سیاسی سطح پر صورتحال خاصی پیچیدہ ہے۔ کانگریس، جو قومی سطح پر ذات پات مردم شماری کی سب سے بڑی حامی رہی ہے، اپنی ہی حکومت میں اس کے نفاذ سے گریز کرتی نظر آ رہی ہے۔ پارٹی کے بعض وکلیگا اور لنگایت لیڈران اس رپورٹ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر اس کی بنیاد پر ریزرویشن پالیسی میں تبدیلی کی گئی تو ان کے طبقات کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ یہی خوف اس رپورٹ کو ایک دہائی تک دبائے رکھنے کی بنیادی وجہ رہا ہے۔وکلیگا اور لنگایت مذہبی ادارے بھی اس رپورٹ کو "غیر سائنسی" اور "متعصب" قرار دے کر اس کے خلاف تحریک چلانے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ یہ وہ طبقات ہیں جو تاریخی طور پر کرناٹک میں سیاسی، سماجی اور معاشی غلبہ رکھتے آئے ہیں، اور اب سماجی انصاف کی نئی لہریں ان کے لیے چیلنج بن گئی ہیں۔اپوزیشن جماعتیں، خصوصاً بی جے پی اور جے ڈی ایس، اس رپورٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ رپورٹ کی تیاری میں سائنسی شفافیت کا فقدان ہے، جب کہ مبصرین کے مطابق ان کی اصل تشویش یہ ہے کہ رپورٹ کی بنیاد پر مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کی نمائندگی میں اضافہ ہو سکتا ہے، جو ریاست کے سیاسی منظرنامے کو بدل کر رکھ دے گا۔یہ رپورٹ ریاست میں تعلیم، روزگار، سیاسی شراکت داری اور ریزرویشن پالیسی پر انقلابی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ اگر اس کی بنیاد پر ریزرویشن کی نئی تشکیل کی گئی تو اعلیٰ ذاتوں کے کوٹہ میں کمی آ سکتی ہے اور مسلمانوں و دیگر پسماندہ طبقات کو آبادی کے تناسب‌ کے حساب سے حق مل سکتا ہے۔مسلمان، جو اب تک کسی واضح پالیسی فریم ورک کے بغیر ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں، اس رپورٹ کی روشنی میں اپنے لیے نئے امکانات حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ رپورٹ ان کے لیے ایک "اصلاحی منشور" بن سکتی ہے، جو تعلیم، سرکاری ملازمتوں اور سیاسی شمولیت میں ان کی موجودگی کو تقویت دے گی۔ایک دہائی کے انتظار کے بعد رپورٹ کابینہ میں پیش کی جا چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ رپورٹ عملی طور پر نافذ کی جائے گی یا پھر ایک بار پھر سیاسی مصلحتوں کی نذر ہو جائے گی؟ کانگریس حکومت ایک طرف اسے تاریخی اقدام قرار دے رہی ہے، تو دوسری طرف اسی کابینہ میں موجود بعض وزراء اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔

کیا ریاستی حکومت طاقتور طبقات کے دباؤ کے آگے جھک جائے گی یا سماجی انصاف کی راہ پر استقامت کے ساتھ قدم بڑھائے گی؟اگر یہ رپورٹ نافذ کی جاتی ہے تو یہ کرناٹک میں سماجی انصاف کی سمت ایک انقلابی قدم ہو گا۔ لیکن اگر اسے دوبارہ مؤخر کر دیا گیا، تو یہ ریاست کے سب سے بڑے طبقات کے ساتھ ایک اور تاریخی ناانصافی تصور کی جائے گی۔17 اپریل کو ہونے والا کابینہ اجلاس محض ایک سرکاری میٹنگ نہیں، بلکہ ایک فیصلہ کن تاریخی لمحہ ہے، جس میں لیا گیا فیصلہ نہ صرف ریاست کے مستقبل بلکہ ہندوستان بھر میں جاری سماجی انصاف کی تحریک کو نئی سمت دے سکتا ہے۔یہ محض ایک مردم شماری رپورٹ نہیں، بلکہ اُن طبقات کی صدا ہے جو برسوں سے حاشیے پر دھکیلے گئے ہیں۔ اب وقت ہے کہ کرناٹک فیصلہ کرے — وہ سچائی، مساوات اور انصاف کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے یا پھر روایت پرستی اور طاقت کے سائے میں ایک اور موقع کھو دیتا ہے۔

haleemmansoor@gmail.com

#haleemmansoor

Author

Arambh Suddi Kannada News True Newses And Stories Telecasting

Experienced journalist focused on global news, trends, and untold stories — with a commitment to accuracy and impact.

1/Post a Comment/Comments

Post a Comment