اردو اکادمی پر الزامات Allegations on Karnataka Urdu Academy

 



کرناٹک اردو اکادمی پر الزامات

ایوارڈز کی غیر شفاف تقسیم پر

 ادبی حلقوں میں اضطراب


از: عبدالحلیم منصور

اردو زبان، جو ہندوستان کی تہذیبی شناخت کا ایک اہم جزو ہے، ہر دور میں مختلف چیلنجز کا سامنا کرتی رہی ہے۔ اس زبان کی ترویج و ترقی کے لیے قائم کیے گئے ادارے، بالخصوص اردو اکادمیاں، ایک امید کی کرن سمجھی جاتی تھیں۔ لیکن جب وہی ادارے خود سوالات کی زد میں آجائیں، تو یہ صورتحال کسی بھی زبان و ادب کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔کرناٹک اردو اکادمی، جو ریاست میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے قائم کی گئی تھی، آج سنگین الزامات اور گہرے شکوک و شبہات کی زد میں ہے۔ جس ادارے سے اردو کے روشن مستقبل کی امید تھی، آج بدنظمی، اقربا پروری، اور غیر شفافیت کے سائے میں الجھا ہوا نظر آ رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں اکادمی کی جانب سے دیے گئے ایوارڈز اور ان کے انتخابی عمل پر اٹھنے والی انگلیاں ادبی حلقوں میں بے چینی اور اضطراب کا باعث بن چکی ہیں۔یہ وہی اکادمی ہے جس سے اردو کے فروغ کی امیدیں وابستہ تھیں، جہاں علم و ادب کے چراغ روشن کیے جاتے، زبان کی بقا کے لیے منصوبے بنتے، اور نفاذ کی راہیں نکالی جاتی تھیں۔ مگر اب اسی ادارے پر بدنظمی اور اقربا پروری کے ایسے سنگین الزامات لگ رہے ہیں جو اس کے وقار کو مجروح کر رہے ہیں۔یہ پہلا موقع نہیں جب اردو اکادمی پر تنقید کی جا رہی ہے، مگر اس بار جو صورتحال سامنے آئی ہے، وہ اردو دان طبقے کے لیے کئی نئے سوالات اور خدشات کو جنم دے رہی ہے۔ ماضی میں بھی اس ادارے کے کام کرنے کے طریقۂ کار پر اعتراضات ہوتے رہے ہیں، مگر اس بار یہ تنقید محض چند افراد کی ناراضی کا نتیجہ نہیں بلکہ مجموعی طور پر ادبی برادری میں بڑھتے ہوئے عدم اطمینان کی علامت ہے۔

کرناٹک اردو اکادمی، جو کبھی زبان و ادب کے فروغ کے ایک بڑے مرکز کے طور پر دیکھی جاتی تھی، اب ایسے فیصلوں کی لپیٹ میں آ چکی ہے جو خود اس کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس مرتبہ سالانہ ایوارڈز کی تقسیم میں اقربا پروری اور غیر شفافیت کے الزامات اس وقت سنگین رخ اختیار کر گئے جب دو ممتاز علمی و ادبی شخصیات—ماہر منصور اور پروفیسر سید شاہ مدار عقیل—نے احتجاجاً اپنے ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کیا۔

ماہر منصور، جو 50 سے زائد تصانیف کے خالق ہیں اور لسانیات و ترجمے کے میدان میں غیر معمولی خدمات انجام دے چکے ہیں اور مرکزی ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ ہیں، نے واضح الفاظ میں کہا کہ کرناٹک اردو اکادمی کی حالیہ ایوارڈ پالیسی غیر شفاف اور اقربا پروری پر مبنی ہے۔ اسی احتجاج کے طور پر انہوں نے اپنا اعزاز واپس کرنے کا اعلان کیا۔

ان کے ساتھ پروفیسر سید شاہ مدار عقیل، جو کوئمپو یونیورسٹی کے اردو شعبے کے سابق سربراہ رہے ہیں، جن کی نگرانی میں بیس سے زائد ریسرچ اسکالرز نے ماسٹر ڈگریاں مکمل کیں، اور جو 18 کتابوں کے مصنف ہیں، نے بھی یہی فیصلہ کیا۔ یہ محض دو شخصیات کی ناراضی نہیں بلکہ مجموعی طور پر ادبی حلقے میں بڑھتے ہوئے عدم اطمینان کی علامت ہے۔انہوں نے اس طریقہ کار پر تنقید کرتے ہوۓ اسے نہ صرف انکی توہین بلکہ تضحیک قرار دیا ۔

یہ پہلا موقع نہیں جب اردو اکادمی کی ایوارڈ پالیسی پر سوالات اٹھائے گئے ہوں۔ گزشتہ چند برسوں میں بھی اکادمی کے تحت مختلف ایوارڈز کی تقسیم میں غیر شفافیت کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں۔ مگر اس بار ادبی شخصیات کے ایوارڈ واپس کرنے کے اعلان نے معاملے کو مزید سنگین بنا دیا ہے اور اکادمی کی ساکھ کو ایک بار پھر داؤ پر لگا دیا ہے۔ شاید ریاست کی تاریخ میں پہلی دفعہ کرناٹک اردو اکادمی کے ذریعے اعلان کردہ ایوارڈ کی واپسی کی روایت کا آغاز ہوا ہے۔

ادبی حلقوں کی تشویش محض کسی ایک تقریب کی بدنظمی تک محدود نہیں، بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا پس منظر ہے۔ ایوارڈز کے انتخاب میں غیر شفافیت اس وقت کھل کر سامنے آ گئی جب کئی مستحق شخصیات کو نظر انداز کر کے ایسے افراد کو نوازا گیا جن کی علمی و ادبی خدمات محدود یا مشکوک سمجھی جاتی ہیں۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ تمام ایوارڈ یافتگان غیر مستحق ہیں ، چند حقیقی خادمان اردو کو بھی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے ، البتہ چند احباب کی اردو خدمات مشکوک ضرور ہیں، یہ بھی الزام ہے کہ اردو زبان سے ناواقف احباب بھی ایوارڈ یافتگان میں شامل ہیں،جس پر سوالات ہورہے ہیں کہ شاید اردو اکادمی کے ذمہ داروں نے کرناٹک کے ادبی منظرنامہ کا جائزہ نہیں لیا ۔

یہ احتجاج محض کسی ایک فرد کا نہیں، بلکہ اردو زبان و ادب کے اس وقار کا معاملہ ہے جسے کرناٹک اردو اکادمی کے زیرِ سایہ پروان چڑھنا تھا، مگر بدنظمی، اقربا پروری، اور غیر سنجیدگی کی نذر ہو گیا۔ حالیہ دنوں میں ایوارڈ تقریب میں ہونے والی بے ضابطگیوں اور روایت شکنی کے خلاف اردو کے معروف دانشوروں اور ادیبوں نے جو قدم اٹھایا، وہ ایک خاموش انقلاب سے کم نہیں۔

سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایوارڈ یافتگان میں بعض ایسے افراد شامل تھے جن کا براہِ راست تعلق اکادمی کے عہدے داروں یا ان کے قریبی حلقے (رشتہ داروں) سے جڑتا ہے۔ اس سے شکوک و شبہات مزید گہرے ہو گئے ہیں کہ انتخاب میں اہلیت کو پسِ پشت ڈال کر ذاتی تعلقات کو ترجیح دی گئی۔

 حالیہ تقریب میں اردو اکادمی کی انتظامیہ نے جو طرزِ عمل اختیار کیا، اس نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ اکادمی کے متعدد اراکین کو فیصلوں سے لاعلم رکھا گیا، ایوارڈ یافتگان کے انتخاب میں غیر شفافیت برتی گئی، اور تقریب کے دوران بدنظمی کا ایسا مظاہرہ دیکھنے میں آیا جس نے ادارے کی انتظامی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ تقریب میں کئی امور کو نظر انداز کیا گیا، اور عمومی اجلاس میں فیصلوں کی باضابطہ منظوری کے بجائے مخصوص افراد کے ذریعے نام فائنل کیے گئے۔

کچھ ایوارڈ یافتگان کو 50 ہزار روپے کا نقد انعام دیا گیا، جبکہ بعض دیگر شخصیات کو محض 10 ہزار روپے اور ایک علامتی سند کے ساتھ "خصوصی ایوارڈ" کے نام پر نوازا گیا۔ اس تفریق نے مزید شکوک و شبہات کو جنم دیا کہ کہیں انتخاب علمی خدمات کے بجائے کسی اور بنیاد پر تو نہیں کیا گیا؟

 کہا جارہاہے کہ ایوارڈ کمیٹی کے فیصلے پر عمومی اجلاس میں منظوری نہیں لی گئی، بلکہ چند افراد نے ازخود نام فائنل کر لیے۔ایوارڈ یافتگان کے ناموں کو آخری وقت تک خفیہ رکھا گیا، تاکہ کسی قسم کی بحث یا مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔کئی مستحق اور معتبر ادبی شخصیات کو نظر انداز کر کے ایسے افراد کو نوازا گیا جن کی اردو خدمات مشکوک یا محدود تھیں۔ نہ ایوارڈ یافتگان کو تحریری طور پر مطلع کیا گیا اور نہ ہی ان کے کارناموں پر مبنی کتابچہ شائع کیا گیا ،یہ بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ اتنی عجلت میں ایوارڈ تقریب کے انعقاد کی ضرورت کیا تھی، کیوں تیاریاں نہیں کی گئیں ، اور کس لیے دیگر اراکین کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔

یہ صورتحال اس وقت اور بھی پیچیدہ ہو گئی جب اکادمی کے چیئرمین کی خاموشی کو محسوس کیا گیا۔ ایسے وقت میں جب ادارہ بحران میں گھرا ہو، اور ادبی طبقہ احتجاج کر رہا ہو، تب قیادت کی خاموشی مزید شکوک کو جنم دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ایوارڈز کی تقسیم شفاف تھی، تو پھر ان اعتراضات کا مدلل جواب کیوں نہیں دیا گیا؟ کیا خاموشی خود ایک غیر اعلانیہ اعترافِ جرم نہیں؟

جب ایک ادارہ بحران میں ہو، اور اس کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہوں، تو اس کے سربراہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان مسائل پر گفتگو کرے، اعتراضات کا جواب دے، اور اصلاحات کا اعلان کرے۔ لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے—مکمل خاموشی، غیر سنجیدگی، اور عدم دلچسپی!

یہ جو اہلِ سیاست ہیں، یہ جو اہلِ حکومت  ہیں

یہ جو تخت پہ بیٹھے ہیں، یہ جو تاج سنبھالے ہیں

یہ اگر آئینہ دیکھیں، تو سنور جائیں زمانے

کرناٹک اردو اکادمی کے سالانہ ایوارڈز کی تقریب کبھی ریاستی سطح پر بڑی اہمیت رکھتی تھی۔ وزیر اعلیٰ اور مسلم وزراء اس میں شریک ہوتے، اردو کے فروغ کے لیے نئے اعلانات کیے جاتے، اقلیتی بہبود سے متعلق منصوبے زیرِ بحث آتے اور اردو دان طبقے کے علاوہ اقلیتوں کے مطالبات سرکاری سطح پر رکھے جاتے تھے۔ مگر اس بار کی تقریب میں جو کچھ ہوا، اس نے اردو داں طبقے کو سنجیدہ فکر میں مبتلا کر دیا ہے۔ اردو اکادمی کی وہ روایات، جو پہلے اس کی شان و شوکت میں اضافہ کرتی تھیں، اب ختم ہو رہی ہیں۔ اس بار وزیر اعلیٰ کے سیاسی مشیر اور دیگر نمائندے شریک ہوئے، مگر دونوں مسلم وزراء اور محکمہ اقلیتی بہبود کے اعلیٰ افسران کی غیر موجودگی نے مزید واضح کر دیا کہ اردو اور ادارہ اب حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں رہے۔

یہ محض کسی ایک تقریب کی بدنظمی نہیں، بلکہ ایک پورے نظام کی ناکامی کا اظہار ہے۔ جب کسی ریاست کی اردو اکادمی خود ہی اردو کے وقار کی حفاظت نہ کر سکے، تو پھر اس کے وجود کا جواز کیا رہ جاتا ہے؟

ایوارڈ واپسی کا یہ احتجاج ایک پیغام ہے کہ اردو زبان کی عزت کسی ایوارڈ سے زیادہ ہے۔ اگر اردو اکادمی کو واقعی ایک معتبر ادارہ بنانا ہے، تو اسے فوری طور پر خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہوگا۔ 

یہ کس کی سازشیں تھیں، جو چراغ بجھائے گئے؟

یہ کس کا حکم تھا، جو قافلے لُٹائے گئے؟

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اردو زبان کو آج کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایسے میں اردو اکادمی جیسے ادارے کا کردار اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔ اگر یہ ادارہ خود ہی بدنظمی اور غیر شفافیت کی نذر ہو جائے، تو پھر اردو کے فروغ کی امید کہاں باقی رہے گی؟

ادبی حلقے اب اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اردو اکادمی کو فوری طور پر خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے۔ اردو اکادمی کی موجودہ صورتحال ایک اصلاحی انقلاب کا تقاضا کرتی ہے۔ اگر فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو اردو کے دانشوروں اور ادیبوں کا اکادمی پر سے اعتماد مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ تنقید کو اصلاح کا ذریعہ بنانے کے بجائے ذاتی حملوں میں بدلا جا رہا ہے، جو مزید نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔اب وقت آ چکا ہے کہ اردو اکادمی کے وقار کو بحال کرنے کے لیے ٹھوس اور عملی اقدامات کیے جائیں۔ ورنہ اردو کے سنجیدہ دانشور اور ادیب اس ادارے سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر لیں گے اور یہ اکادمی صرف ایک سرکاری خانہ پری تک محدود رہ جائے گی۔

haleemmansoor@gmail.com

Author

Arambh Suddi Kannada News True Newses And Stories Telecasting

Experienced journalist focused on global news, trends, and untold stories — with a commitment to accuracy and impact.

0/Post a Comment/Comments