حکومتِ نے ریاستی دارالحکومت کے شہری انتظامات کو مؤثر اور ہم آہنگ بنانے کے لیے ’’گریٹر بنگلورو گورننس ایکٹ 2024‘‘ کو 15 مئی سے نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نئے قانون کے تحت بروہت بنگلورو مہانگر پالیکے (بی بی ایم پی) کو منسوخ کر کے اسے کئی آزاد کارپوریشنوں میں تقسیم کیا جائے گا، تاکہ بلدیاتی نظم و نسق میں شفافیت، رفتار اور جوابدہی کو فروغ دیا جا سکے۔ وزیر برائے قانون و پارلیمانی امور ایچ کے پاٹل نے گزشتہ جمعے کے کابینہ اجلاس کے بعد صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے اسکی اطلاع دی۔ انہوں نے بتایا کہ اس قانون کو ریاستی گورنر نے منظوری دے دی ہے اور اسے نافذ کرنے کے لیے 15 مئی کو نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔اس قانون کے تحت ’’گریٹر بنگلورو اتھارٹی‘‘ کے قیام کی تجویز ہے، جس کی سربراہی وزیر اعلیٰ سدارامیا کریں گے۔ اتھارٹی میں متعلقہ وزراء، ارکانِ اسمبلی، میئروں، شہری اداروں کے سربراہان اور اعلیٰ افسران شامل ہوں گے۔ یہ اتھارٹی شہری منصوبہ بندی، بنیادی ڈھانچے، ٹرانسپورٹ، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور دیگر شہری سہولیات کے سلسلے میں مربوط فیصلہ سازی کرے گی۔ابتدائی مرحلے میں بی بی ایم پی کے چیف کمشنر ہی اس اتھارٹی کے چیف کمشنر کے طور پر فرائض انجام دیں گے، جب تک مستقل تقرری عمل میں نہیں آتی۔
بی بی ایم پی کی تقسیم، انتخابات تاخیر کا شکار
گریٹر بنگلورو ایکٹ کے نفاذ کے بعد بی بی ایم پی کو کم از کم تین شہری کارپوریشنوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ ہر کارپوریشن کو اپنی حدود میں ٹیکس، فیس اور محصولات عائد کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ تاہم، نئی حد بندی اور مخصوص طبقات کے لیے ریزرویشن طے کیے جانے تک بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ بی بی ایم پی کے تحت انتخابات مزید تاخیر کا شکار ہوں گے۔ذرائع کے مطابق، سینئر آئی اے ایس افسر مہیشور راؤ کی بی بی ایم پی چیف کمشنر کے طور پر حالیہ تقرری اسی تنظیمِ نو کے تحت ایک اہم پیش رفت ہے۔
بی جے پی اور جنتا دل (سیکولر) نے اس قانون کی سخت مخالفت کی ہے۔ اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ یہ قانون آئینِ ہند کی 74ویں ترمیم کی روح کے منافی ہے، جو شہری اداروں کو خودمختار بنانے پر زور دیتی ہے۔ اسمبلی و کونسل میں بل کی منظوری کے وقت دونوں جماعتوں نے واک آؤٹ کیا تھا۔تاہم حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس قانون سے بنگلورو کی تیز رفتار ترقی، شفافیت، اور شہری خدمات کی مؤثر فراہمی ممکن ہو گی، اور اس ماڈل کو دیگر بڑے شہروں کے لیے بھی قابلِ تقلید بنایا جا سکے گا۔نئے تشکیل شدہ کارپوریشنوں کو پراپرٹی ٹیکس، تجارتی لائسنس، اشتہارات، تفریحی ٹیکس، پارکنگ فیس، اور دیگر محصولات جمع کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ اس کے علاوہ قانون میں تاریخی اور ثقافتی اہمیت کی حامل عمارتوں کے تحفظ کے لیے خصوصی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں، جنہیں تین درجوں (گریڈز) میں تقسیم کیا جائے گا۔15 مئی کے بعد سے بی بی ایم پی کی موجودہ حیثیت ختم ہو جائے گی اور ’’گریٹر بنگلورو گورننس ایکٹ 2024‘‘ کے تحت شہر کے نظم و نسق میں ایک نئے باب کا آغاز ہوگا۔ اگرچہ اس قانون کا مقصد شہری ترقی کو تقویت دینا ہے، لیکن اس کے سیاسی، انتظامی اور انتخابی اثرات آنے والے مہینوں میں مزید نمایاں ہوں گے۔
دائرۂ اختیار محدود رہے گا
حکومت نے گریٹر بنگلورو گورننس ایکٹ 2024 پر عمل درآمد کا فیصلہ تو کر لیا ہے، مگر اس کے دائرۂ اختیار کو فی الحال موجودہ بروہت بنگلورو مہانگر پالیکے (بی بی ایم پی) کے 709 مربع کلومیٹر حدود تک ہی محدود رکھنے کا امکان ہے۔ گریٹر بنگلورو اتھارٹی (جی بی اے) کے قیام کے بعد، شہر کے اطراف کے کئی دیہات نے گرام پنچایتوں سے علیحدہ ہو کر شہری بلدیاتی نظام میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ تاہم، حکومت کی طرف سے تاحال ان دیہی علاقوں کو جی بی اے کی حدود میں شامل کرنے کا کوئی واضح فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے۔رکن اسمبلی رضوان ارشد کی سربراہی میں لیجسلیچر کی بی بی ایم پی ری اسٹرکچرنگ کمیٹی نے اپنے پہلے عبوری رپورٹ میں گریٹر بنگلورو اتھارٹی کے لیے 1307 مربع کلومیٹر کا دائرہ تجویز کیا تھا، جس میں بی بی ایم پی اور بی ڈی اے کے علاقے شامل تھے۔ تاہم، کمیٹی کی حالیہ رپورٹ میں واضح طور پر شہری حدود کا ذکر نہیں کیا گیا۔اس رپورٹ کے بعد بنگلورو شہری و دیہی اضلاع کے کئی ارکانِ اسمبلی نے مضافاتی دیہات کو بنگلورو کی حدود میں شامل کرنے کی تجاویز پیش کیں۔ ان تجاویز کے بعد ریئل اسٹیٹ مارکیٹ میں بھی ہلچل دیکھی گئی، اور شہری حدود کے قریب واقع دیہات میں زمین کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ایک سرکاری ذرائع نے بتایا کہ: "ابتدائی مرحلے میں گریٹر بنگلورو کے لیے بی بی ایم پی کی موجودہ حدود ہی دائرۂ اختیار تصور کی جائیں گی۔ بعد ازاں گرام پنچایتوں اور مضافاتی قصبوں کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔"واضح رہے کہ نئے ایکٹ کے تحت تین سطحی بلدیاتی نظام متعارف کرایا گیا ہے، جس میں گریٹر بنگلورو اتھارٹی، سٹی کارپوریشنز اور وارڈ کمیٹیاں شامل ہیں۔ اس قانون میں زیادہ سے زیادہ سات سٹی کارپوریشنز بنانے کی گنجائش دی گئی ہے۔حکومت کی اس اسکیم کو اپوزیشن بی جے پی نے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے طاقت کے ارتکاز اور بلدیاتی انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش قرار دیا ہے۔ بی بی ایم پی گزشتہ ساڑھے چار سال سے بغیر منتخب ادارے کے چل رہی ہے، اور کانگریس حکومت نے گریٹر بنگلورو اتھارٹی کے قیام کے بعد منتخب نمائندوں کے ذریعے شہر کا نظم و نسق چلانے کا وعدہ کیا تھا، مگر اس پر عمل درآمد کی حتمی تاریخ ابھی واضح نہیں۔
TAUZ UL IMAM MD NABI
Experienced journalist focused on global news, trends, and untold stories — with a commitment to accuracy and impact.
Post a Comment