R Ashoka: Congress Dividing Bengaluru, We Will Oppose آر اشوک کا کانگریس سے جنگ یا امن پر واضح موقف مانگنے کا مطالبہ

 جنگ یا امن؟ کانگریس کو اپنا مؤقف واضح کرنا ہوگا: آر اشوک

گریٹر نہیں، کانگریس بنگلور کو کوارٹر بنا رہی ہے، بی جے پی کی تنقید 

بنگلورو، 15 مئی (حقیقت ٹائمز)

کرناٹک اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر آر اشوک نےآج کانگریس پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک طرف کانگریس کے بعض رہنما جنگ کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف کچھ امن کی وکالت کر رہے ہیں۔ ایسے متضاد بیانات سے قوم کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی (اے آئی سی سی) کو چاہیے کہ وہ اس معاملے پر ایک واضح اور متفقہ مؤقف پیش کرے۔ بنگلورو میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "کانگریس حکومت کے دور میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح امریکہ جا کر ان سے مدد مانگی گئی۔ ممبئی میں دہشت گردانہ حملے کے دوران 175 افراد جاں بحق ہوئے تھے، لیکن اس وقت کے وزیراعظم منموہن سنگھ کی قیادت میں یو پی اے حکومت نے کوئی مؤثر ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اب جبکہ وزیراعظم نریندر مودی نے دہشت گردوں کو سخت جواب دیا ہے، تو کانگریس کے رہنما اس پر بھی سیاست کر رہے ہیں۔"انہوں نے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ ہم نے نہیں کیا، لیکن مودی حکومت نے اس معاہدے کو ختم کر دیا، جبکہ یہ اقدام کانگریس کو بہت پہلے کرنا چاہیے تھا۔ اشوک نے ریاستی وزیر سنتوش لاڈ کو مشورہ دیا کہ وہ ان حقائق سے آگاہ ہوں۔انہوں نے مزید کہا کہ آج پورا جموں و کشمیر وزیراعظم مودی کے ساتھ کھڑا ہے۔ وہاں کے وزیراعلیٰ بھی مرکزی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں۔ وہاں کے لوگ ترقی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ "وزیراعظم نے کہا ہے کہ پاکستان کے زیرِ قبضہ کشمیر (پی او کے) ہمارا ہے اور ہم اسے واپس لائیں گے۔ لیکن کانگریس کا کوئی ایک بھی رہنما یہ بات کہنے کی ہمت نہیں کر سکا۔"انہوں نے سوال کیا کہ جب مرکزی وزیر خارجہ واضح کر چکے ہیں کہ ہندوستان کسی ثالثی کو قبول نہیں کرے گا، تو کانگریس کے لوگ کیوں بار بار ایسے بیانات دے رہے ہیں؟ کبھی کہتے ہیں جنگ نہیں چاہیے، پھر کہتے ہیں کہ جنگ ہونی چاہیے تھی۔ وزیراعلیٰ سدارامیا، نائب وزیراعلیٰ ڈی کے شیوکمار اور پارٹی صدر ملیکارجن کھرگے نے جنگ بندی کا خیرمقدم کیا، لیکن انہی کی پارٹی کے کئی رہنما جنگ جاری رکھنے کی بات کر رہے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ کانگریس میں کئی دھڑے ہیں اور ہر کوئی اپنی بات کہہ رہا ہے۔آر اشوک نے مطالبہ کیا کہ کانگریس کو چاہیے کہ وہ جنگ اور امن کے مسئلے پر اپنا واضح مؤقف قوم کے سامنے رکھے۔ "کیا جنگ چاہیے؟ کیا امن چاہیے؟ کیا مصالحت چاہتے ہیں؟ پہلے اس پر وضاحت دیں، پھر دوسرے معاملات پر بات کریں۔ ہمارے جوان اب بھی دہشت گردوں کے خلاف محاذ پر ہیں، ان کی قربانیوں پر سوال نہ اٹھایا جائے۔"

گریٹر نہیں، کوارٹر بنگلور بنانے کی سازش

آر اشوک نے کانگریس پر بنگلور کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ "ناڈا پر بھو کیمپے گوڑا نے ایک بنگلور بنایا تھا، لیکن کانگریس حکومت اسے تین حصوں میں بانٹ رہی ہے۔ اس تقسیم سے ترقی ممکن نہیں۔ 110 دیہاتوں میں رہنے والے عوام پر بھاری ٹیکس عائد کیے جا رہے ہیں۔ اس منصوبے کا مقصد صرف مخصوص زمینوں کی قیمت بڑھانا ہے۔"انہوں نے کہا کہ بنگلور کی تقسیم سے ریاستی آمدنی میں کمی آئے گی۔ جب آئی ٹی اور بی ٹی کمپنیز ایک جگہ ہیں تو دوسری طرف محصول کیسے حاصل ہوگا؟ تین میونسپل کارپوریشن بننے کے بعد یہ بھی ممکن نہیں کہ وہاں کنڑ زبان بولنے والے میئر بنیں، اشوک نے سوال اٹھایا کہ جب وزیراعلیٰ خود میونسپل کارپوریشن سے منتخب نہیں ہوتے، تو وہ گریٹر بنگلور اتھارٹی کے صدر کیسے ہو سکتے ہیں؟ "بی جے پی کی رائے ہے کہ بنگلور کو تقسیم نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ہماری حکومت آئی تو ہم دوبارہ متحد بنگلور بنائیں گے۔"

ڈی کے شیوکمار پر تنقید

بی جے پی رہنما نے نائب وزیراعلیٰ ڈی کے شیوکمار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ "انہوں نے اپنے مفاد کے لیے یہ منصوبہ بنایا ہے۔ بی ڈی اے کے کئی لے آؤٹس ابھی بھی خالی ہیں جہاں پانی اور بجلی جیسی سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔"آر اشوک نے مزید کہا کہ بی بی ایم پی انتخابات کو مؤخر کرنے کے لیے ہی یہ منصوبہ بنایا گیا ہے۔ شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر ہیں، میکیداٹو منصوبہ ابھی تک نافذ نہیں کیا گیا، اور شہری انتظامیہ مکمل طور پر ناکام ہے۔ اس ناکامی کو چھپانے کے لیے کانگریس نے بنگلور کی تقسیم کا منصوبہ لایا ہے۔

Author

TAUZ UL IMAM MD NABI

Experienced journalist focused on global news, trends, and untold stories — with a commitment to accuracy and impact.

0/Post a Comment/Comments