Big Breaking Rajyasabha also passed Controversial Wakf bill راجیہ سبھا میں بھی متنازع وقف بل منظور
byAdministrator-0
راجیہ سبھا میں بھی متنازعوقف بل منظور
مسلمانوں کی تشویش کی لہر ،خدشات میں اضافہ
نئی دہلی: 4 اپریل (حقیقت ٹائمز)
طویل سیاسی کشمکش اور سخت بحث و مباحثے کے بعد، وقف (ترمیمی) بل کو راجیہ سبھا میں بھی منظوری دے دی گئی، جس کے بعد یہ قانون بننے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ حکومت نے اسے شفافیت اور اصلاحات کی سمت اہم قدم قرار دیا، جبکہ اپوزیشن نے اسے مسلم جائیدادوں پر حکومتی قبضے کی کوشش کہا ہے۔بدھ کو لوک سبھا میں 12 گھنٹے کی شدید بحث کے بعدجمعرات کی اولین ساعتوں میں یہ بل 288 ووٹوں کے ساتھ منظور ہوا، جبکہ 232 ارکان نے مخالفت کی۔ جمعرات کو بحث و مباحثے کے بعد جمعہ کی علی الصبح راجیہ سبھا میں بھی 128 ووٹوں کے ساتھ اس کی توثیق ہوگئی، جبکہ 95 ارکان نے مخالفت میں ووٹ ڈالا۔
حکومت کا مؤقف
پارلیمانی امور اور اقلیتی امور کے وزیر کِرن رجیجو نے ایوان میں بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ"یہ قانون وقف املاک کے انتظام کو بہتر بنانے، بدعنوانی ختم کرنے اور ان جائیدادوں کو عوامی فلاح و بہبود کے لیے استعمال میں لانے کی سمت میں ایک بڑا قدم ہے۔"انہوں نے مزید کہا کہ اس بل کو لانے سے پہلے ریاستی حکومتوں، اقلیتی کمیشن اور وقف بورڈز سے مشاورت کی گئی اور اسے پارلیمانی کمیٹی نے بھی جانچا۔
اپوزیشن کا شدید ردعمل
اپوزیشن نے اس بل کو "غیر آئینی اور مسلم وقف املاک پر حکومتی کنٹرول کی کوشش" قرار دیا۔ راجیہ سبھا میں قائد حزب اختلاف، ملیکارجن کھرگے نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا"یہ بل مسلمانوں کے خلاف ہے اور حکومت اپنی اکثریتی طاقت کے بل پر اقلیتوں کے حقوق سلب کرنا چاہتی ہے۔"انہوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ اقلیتوں کے بجٹ میں مسلسل کٹوتی کر رہی ہے اور مختلف تعلیمی و سماجی اسکیموں کو ختم کیا جا رہا ہے۔سینئر وکیل اور راجیہ سبھا کے رکن کپل سبل نے بحث کے دوران ہندو مذہبی جائیدادوں پر بھی قانون سازی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ"چار ریاستوں میں ہندو مذہبی اداروں کے پاس 10 لاکھ ایکڑ سے زائد زمین ہے، لیکن حکومت صرف وقف املاک پر قانون سازی کر رہی ہے۔"انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت واقعی اصلاحات چاہتی ہے تو ہندو مذہب میں وراثت کے قوانین میں بھی ترمیم کرے، جہاں بیٹیوں کو جائیداد سے محروم رکھا جاتا ہے۔بی جے پی صدر جے پی نڈا نے اپوزیشن کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ "یہ بل کسی مذہب کے خلاف نہیں بلکہ غریبوں کے حقوق اور مسلم خواتین کی فلاح کے لیے ہے۔"انہوں نے کہا کہ "مودی حکومت نے تین طلاق کے خلاف قانون لاکر مسلم خواتین کو بااختیار بنایا، اور اب وقف املاک کو بھی شفاف بنانا چاہتے ہیں۔"
بل کی منظوری کے بعد کیا ہوگا؟
اس بل کی منظوری کے بعد ملک بھر میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے بعد وقف جائیدادوں پر سرکاری کنٹرول بڑھ جائے گا۔ریاستی حکومتوں کو وقف بورڈ کے فیصلوں میں زیادہ مداخلت کا اختیار ملے گا۔عدالتوں میں اس قانون کے خلاف چیلنج دائر ہونے کا امکان ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس قانون کے نفاذ کے بعد عملی سطح پر کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، اور آیا یہ واقعی شفافیت لائے گا یا پھر مسلم وقف جائیدادوں پر حکومتی گرفت مزید مضبوط ہو جائے گی۔
Arambh Suddi Kannada News True Newses And Stories Telecasting
Experienced journalist focused on global news, trends, and untold stories — with a commitment to accuracy and impact.
Post a Comment