K. Rajakumar Nominated for Sangolli Rayanna Awardاردو نواز راجکمار سنگولی راینا ایوارڈ کیلئے نامزد
byAdministrator-0
لسانی ہم آہنگی اور تعلیمی خدمات کی پہچان
سنگولی راینا ایوارڈ کیلئے نامزد محب اردو راجکمار کی خاموش کاوشیں
بنگلور 9 اپریل (حقیقت ٹائمز)
ایک ایسے دور میں جب علاقائی زبانوں کی حیثیت محض رسمی خانوں میں محدود ہو رہی ہے، جب مادری زبانوں کو ترقی کے خواب دکھا کر عملی دنیا سے کاٹ دیا جا رہا ہے، ایسے وقت میں بعض شخصیتیں اپنی خاموش اور مسلسل خدمات سے قوموں کی تہذیب و تمدن کو بچانے کا بیڑہ اٹھاتی ہیں۔ کے. راجکمار کا شمار انہی معتبر اور وفادار افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے زبان، تہذیب، تحقیق، عوامی شعور، صحافت، ادب، ثقافت اور خدمت کے میدان میں قابلِ ستائش کردار ادا کیا ہے۔ریاستی حکومت کی جانب سے انہیں رواں سال"سنگولی راینا ایوارڈ" کے لیے نامزد کرنا ان کی بے لوث خدمات کا سرکاری اعتراف ہے،یہ باوقار ایوارڈ پانچ لاکھ روپے نقد ،سپاس نامے اور مومنٹو پر مشتمل ہے،جو نہ صرف کنڑا زبان کی خدمت کے لیے اہم ہے بلکہ مجموعی طور پر لسانی ہم آہنگی، اردو-کنڑا رشتے، اور ثقافتی یگانگت کی شاندار مثال بھی ہے۔عنقریب منعقد ہونے والی تقریب میں وزیرِاعلی کے ہاتھوں یہ ایوارڈ پیش کیا جائے گا ۔کے راجکمار کا تعلق کرناٹک کے ضلع کولار سے ہے، جو ایک تاریخی، لسانی اور تہذیبی مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان کی پیدائش 1958 میں ہوئی۔ ان کا بچپن کولار کے مسلم اکثریتی علاقے میں گزرا، جہاں ان کے والد کی اگربتّی فیکٹری میں 48 مسلم کارکنوں کے ساتھ ان کی پرورش ہوئی۔ یہی ماحول ان کے دل میں مذہبی رواداری، تہذیبی یگانگت اور لسانی ہم آہنگی کی بنیاد بنا۔انہوں نے بچپن ہی سے مسلمانوں کے ساتھ رہ کر دکنی اردو میں اس قدر روانی حاصل کی کہ آج بھی وہ دکنی لہجے میں فصیح گفتگو کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ زبان انسان کو انسان سے جوڑنے کا ذریعہ ہے، نہ کہ تفریق کا۔کے راجکمار نے 22 برسوں تک مسلسل کنڑا سے نابلد مسلم نوجوانوں اور افراد کے لیے کنڑا زبان کی سائنسی بنیاد پر تربیت کا اہتمام کیا۔ یہ ایک ایسی بے مثال خدمت تھی جس نے ہزاروں اردو داں مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں، روزمرہ زندگی، تعلیم اور سرکاری معاملات سے جوڑنے میں مدد کی۔ ان کی محنت اور خلوص سے کئی افراد نہ صرف کنڑا زبان سیکھنے میں کامیاب ہوئے بلکہ ریاستی دھارے میں بہتر شراکت دار بنے۔انہوں نے اس تعلیمی و تربیتی مشن کے دوران کنڑا ثقافت اور تہذیب سے بھی سامعین کو روشناس کرایا۔ قابلِ ذکر ہے کہ وہ معروف کنڑا مفکر ڈاکٹر ایم. چدانند مورتی کی تصنیف "کنڑا سنسکرتی نمّا ہیمّے" (کنڑا ثقافت، ہمارا فخر) کو اردو میں ترجمہ کروا کر شائع کروانے کے محرک رہے۔ اردو ترجمہ "کرناٹک کی تہذیب و تمدن باعثِ فخر" کے عنوان سے شائع ہوا جسے ڈاکٹر مدّنّا منظر نے ترجمہ کیا۔ اس کام کا مقصد اردو داں طبقے کو ریاستی ثقافت سے جوڑنا اور لسانی میل جول کو فروغ دینا تھا۔کے راجکمار صرف ایک محقق یا فعال کارکن نہیں بلکہ ایک ایسے سچے سپاہی ہیں جنہوں نے علاقائی"زبان" کو عوام کی عزت، تہذیب اور شعور کا آئینہ سمجھا۔ ریاست بھر میں کنڑا بیداری، لسانی خودمختاری، اور مقامی زبانوں کی تعلیم و ترویج کے لیے 45 سال سے زائد عرصے تک خاموش لیکن مؤثر تحریک چلائی۔ ان کی کاوشوں سے کئی سرکاری دفاتر میں کنڑا زبان کے نفاذ کو یقینی بنایا گیا۔
کے. راجکمار اردو کے بھی ایسے ہمدرد ثابت ہوئے ہیں جنہوں نے ہمیشہ ریاستی و علاقائی سطح پر اردو زبان کو نصاب میں شامل رکھنے، اردو اساتذہ کی بحالی، اور اردو ثقافت کی نمائندگی کے حق میں آواز اٹھائی۔ وہ کنڑا ادبی حلقوں میں اردو کی شمولیت کے نہ صرف قائل رہے بلکہ عملی طور پر اردو شعر و ادب کے مشاعروں، مذاکروں اور ادبی مجالس میں شرکت کرتے رہے۔ وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ "اردو اور کنڑا صرف دو زبانیں نہیں، یہ دو دل ہیں جو ایک دھڑکن کے ساتھ جیتے ہیں۔"ریاستی سطح پر 17 سے زائد علمی، ادبی، لسانی اور تحقیقی اداروں سے ان کی وابستگی رہی ہے۔ ان کے مضامین، کالمز اور تحقیقی مطالعے کنڑا اخبارات و رسائل میں پابندی سے شائع ہوتے رہے ہیں۔ وہ لسانی ہم آہنگی کے بامعنی پرچارک ہیں، جن کی کوششوں سے کنڑا اور اردو داں طبقے ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں۔ان کی زندگی کا ایک اور اہم پہلو عوامی خدمت کا ہے۔ مختلف سماجی تحریکات، تعلیمی بیداری مہمات، نوجوانوں کی ذہنی تربیت، کسانوں کے مسائل، دیہی علاقوں میں کنڑا لائبریریوں کا قیام اور غریب بچوں کی تعلیم کا انتظام – یہ سب ایسے شعبے ہیں جن میں وہ کسی صلے یا منصب کے بغیر سرگرم رہے۔انہوں نے پورے کرناٹک میں زبان و ثقافت پر مبنی 100 سے زائد عوامی پروگرام منعقد کیے۔ ان کے دورِ صدارت میں "کنڑا-اردو میل ملاپ" پر ایک خصوصی سمینار کا انعقاد بھی یادگار رہا، جس میں انہوں نے اردو کو "کنڑا کی چھاؤں میں پلنے والی خوشبو" قرار دیا۔ان کی تقریریں، تحریریں اور بصیرت افروز گفتگو، سامعین کو محض متاثر نہیں کرتیں بلکہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ انہیں کئی ریاستی اعزازات سے نوازا گیا ہے۔جن میں کرناٹک حکومت کے کنڑ بُک اتھارٹی کی جانب سےڈاکٹر جی پی راجارَتنم ساہتیہ پرچارک اعزاز،بی بی ایم پی کی جانب سے ناڈاپربھو کیمپے گوڑا اعزاز،اور کولار ضلع انتظامیہ کی جانب سے کرناٹک راجیہ اُتسَو ایوارڈ شامل ہیں ۔
ریاستی سطح کے باوقار سنگولی راینا اعزاز کیلئے راج کمار کی نامزدگی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوۓ اکھیلا کرناٹک محمدیہ کنڑا ویدیکے کے صدر سمیع اللہ خان اور انکے رفقاء نے انہیں مبارکباد پیش کرتے ہوۓ اسے انکی لسانی و سماجی خدمات کا اعتراف قرار دیا ہے۔
ان کی شخصیت میں سادگی، خلوص اور مستقل مزاجی کا امتزاج ہے۔ وہ بلند آواز میں خود کو پیش کرنے کے قائل نہیں بلکہ خاموشی سے اثر انداز ہونے کے فن میں یکتا ہیں۔ نوجوانوں کے لیے ان کا پیغام سادہ لیکن گہرا ہے: "زبان سیکھو، زبان سے محبت کرو، اور زبان کے ذریعے انسان سے جڑو۔"
کے. راجکمار کا نام آج بھی اس صف میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے "کام بولے، نام نہیں" کی روش پر چلتے ہوئے خود کو مقامی اور ریاستی سطح پر لسانی ورثے کے محافظ کے طور پر منوایا ہے۔ اردو والوں کے لیے وہ ایک ایسا کنڑا نواز چہرہ ہیں جس نے ہر موقع پر اردو کے ساتھ کھڑے ہو کر یہ بتایا کہ زبانیں دیواریں نہیں، دروازے ہوتی ہیں – ملنے کے، سمجھنے کے، اور قریب آنے کے۔اور یہی اُن کی سب سے بڑی پہچان ہے۔
Arambh Suddi Kannada News True Newses And Stories Telecasting
Experienced journalist focused on global news, trends, and untold stories — with a commitment to accuracy and impact.
Post a Comment