New Waqf Law: The Worst Political Deception in Independent India نیا وقف قانون: آزاد ہندوستان کا بدترین سیاسی فریب

نیا وقف قانون:تاریخ کا بدترین 

 سیاسی فریب

از: محمد اعظم شاہد

ہندوستان میں جب سے بی جے پی برسر اقتدار آئی ہے۔ مسلمانوں کو وقتاً فوقتاً نئے نئے مسائل میں اُلجھایا جا تارہا ہے۔ ملک میں سب کا ساتھ سب کا وِکاس اور سب کا وشواس محض ایک دکھا وا اور فریب نعرہ ہے۔ مسلمانوں کو ملک کے قومی دھارے میں شامل ہونے سے دور رکھنے کی ساری سازشیں اور منصوبے مودی حکومت کامیابی کے ساتھ رو بہ عمل لارہی ہے۔ مسلمانوں کی فکر کی اور ان کی ترقی کی بات کرنے والی مرکز کی بی جے پی سرکار میں ان کا ایک بھی نہ رکن پارلیمان ہے اور نہ ہی وزارت میں کوئی نمائندہ۔

مسلمانوں کو ترقی کی شمولیت میں لانے کی تمام باتیں خوش فہمیاں ثابت ہوتی رہی ہیں۔Participation Inclusive کا پروپیگنڈہ ایک دھوکہ ہے،جو مرکزی حکومت پچھلے دس برسوں سے مسلمانوں کے ساتھ کرتی آرہی ہے۔ مسلمانوں کی عبادت گاہیں یعنی مساجد، مدارس،خانقاہیں، در گاہیں، قبرستان، عاشور خانے اور دیگر ملی ادارے ہمارے دینی اورملی شعائر کی بنیاد ہیں۔ اور ملک میں اوقاف ہماری مذہبی اور ملی شناخت کا اٹوٹ حصہ رہے ہیں۔ ا ب مرکزی حکومت نے وقف ایکٹ 1995میں ترمیمات کے بعد وقف ترمیمی بل2024کو پارلیمنٹ میں پیش کیا۔ اپوزیشن کی پر زور مخالفت اور ملک گیر احتجاج کے زیر اثر جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کی تشکیل عمل میں آئی۔ جے پی سی نے،جو رپورٹ پیش کی وہ جانبدارانہ اور ایک طرفہ رہی۔ وقف ترمیمی بل پر پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں زبردست بحث ہوئی۔ آخر کار وہی ہوا،جس کا اندیشہ تھا۔ دونوں ایوانوں میں بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کی اکثریت کی حمایت سے وقف ترمیمی بل منظور ہوگئی۔ جبکہ اپوزیشن نے وقف پر بل اپنے مدلل اعتراضات جتائے۔گوکہ یہ ترمیمات غیرآئینیal unconstitution ہیں اورآئین کے آرٹیکل 14، 15، 21، 25، 26 اور 300اے سے متصادمcontradictoryہیں۔ ان تمام دلائل اور حقائق کے باوجود ان ترمیمات کا منظور ہوجانا اور صدر جمہوریہ کی منظوری کے بعد اب یہ نیا وقف قانون بن گیا ہے۔ اس نئے وقف قانون کو مسلمانوں کی مذہبی آزادی کو سلب کرنے کا ایک خطرناک سازش سمجھا جارہا ہے۔ وقف ایکٹ میں بنیادی طور پر او قافی املاک کو مسلمانوں کے زیر نگرانی اس کے قانونی نظام میں تبدیلی کرتے ہوئے غیر مسلم احباب کو ریاستی وقف بورڈ میں رکنیت اور فیصلہ سا زی کے لیے راہیں ہموار کر دی ہیں۔ اب اوقانی جائیدادوں کی قانونی حیثیت ڈسٹرکٹ کلکٹر کی ذمہ داری میں ہوگی،جو ہر اعتبار سے اوقافی املاک سے جڑے تنازعات میں مسلمانوں کے مفادات کے خلاف اقدام ہوگا۔

مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیت علمائے ہند نے ملک گیر سطح پر وقف ترمیمی بل پر خاموش احتجاج کی آواز دی تھی۔ اب چونکہ وقف ترمیمات بل قانون بن گیاہے۔ اس کے عملی نفاذ سے قبل ان ترمیمات کو آئینی مراعات سے متصادم ہونے کے دلائل کی روشنی میں سپریم کورٹ میں داخل درخواستوں کے ذریعہ چیلنج کیا جارہاہے۔ اب سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے۔ کانگریس اور دیگر اپوز یشن پارٹیوں کے ممبران پارلیمنٹ نے بھی نئے وقف قانون کے اطلاق کے خلاف درخواستیں داخل کی ہیں۔ سپریم کورٹ میں ان درخواستوں کی پیروی کرنے والے نامور وکلا نے تاویلات پیش کی ہیں کہ نئے وقف قانون کے معاملے میں بہ عجلت ممکنہ شنوائی کو یقینی بنایا جائے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ نے تیقن دیا ہے کہ مذکورہ معاملہ پر جلدی شنوائی ہوگی۔ مرکز میں حکومت اور محکمہئ قانون و انصاف کی جانب سے نئے وقف قانون کو سرکاری طور پر نافذ کرنے سے روک کے احکامات کا سپریم کورٹ میں داخل درخواستوں میں خصوصی طور پر گزارش کی گئی ہے۔ مرکز می حکومت نے مودی کی قیادت میں مسلمانوں سے ہمدردی کے نام پرطلاق ثلاثہ، شہریت قانون سی اے اے اور این آرسی کے ہتھکنڈے آزمائے تو مسلمانوں کے لیے جڑی اوقافی جائیدادوں کو مسلمانوں سے بے دخل کرنے، مسلمانوں کو بے وقعت و بے اثر کرنے کے بنیادی مقصد کے تحت جو آرایس ایس کا خفیہ ایجنڈا ر ہا ہے، اس کے لیے مودی حکومت منصوبہ بند طور پر موقع کی تاک میں تھی اور پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں اپنی اکثریت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے آئین و جمہوری طور پر دھوکہ دہی کااقدام کیا ہے۔ او قافی جائیدادوں کے انتظام و انصرام میں شفافیت کے نام پر اس نئے کالے قانون کو مسلمانوں کے خلاف ان کی شناخت ختم کرنے ایک قانونی ہتھکنڈے کے طور پر اس کو استعمال کیا گیا ہے۔

اب سوال یہ ہے اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں،جودرخواستیں داخل ہیں، ان کی پیروی اور شنوائی تک قانونی طور پر کچھ ہو نہ سکے گا۔ اب یہی ایک قانونی راستہ ہے۔ اس کے علاوہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے آواز دی ہے کہ ملک گیر سطح پر دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد احتجاج جاری کھے گی۔ پرامن اور قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کرنے کے منصوبے کے ساتھ ہر جمعہ کالی پٹیاں باندھ کر نماز ادا کر نے کی اپیل کی گئی ہے۔ کالی پٹی باندھ کر احتجاج کرنا کسی بھی اقدام یا قانون کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کا عام جمہوری طریقہئ کار ہے۔مگر اتر پردیش میں کالی پٹی باندھنے والے نوجوانوں پر مقدمات دائر کیے جارہے ہیں۔حراست میں لیا جا رہاہے۔ ہر اس شخص پر، جس نے وقف بل کی مخالفت میں حصہ لیا اور کالی پٹی باندھ کر مظاہرہ کیا، اس کی ضمانت کے لیے لاکھ دو لاکھ روپیوں کے بانڈ کی شرط رکھی جارہی ہے۔ یعنی یو پی میں حکومت یہ اشارہ دے رہی ہے کہ نئے وقف قانون پر کسی بھی طرح کا احتجاج مسلمانوں کے اوپرپریشانی کا باعث ہوگا۔ ان حالات میں کالی پٹی کا احتجاج کس حد تک عملی طور پر ممکن ہوسگے گا، یہ بھی بڑا سوال ہے۔ جمہوری نظام میں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے اب آواز اُٹھانا جرم قرار دیا جارہا ہے۔ مسلمانوں میں ایک طرح سے خوف و ہراس کا ماحول پھیلایاجارہا ہے۔ خاموش ہو جاؤ آواز نہ اُٹھاؤ۔

ہندو توا واد کے ایک شرپسند لیڈر نے مسلمانوں کو یہ کہتے دھمکایا ہے،اگر وقف قانون پر شاہین باغ جیسا احتجاج ہوگا تو جلیان والا باغ کی طرح ان پر گولیاں چلیں گی۔ ایسے بھڑکیلے بیانات پر نہ مرکزی حکومت نے اور نہ ہی ریاستی حکومت نے کوئی تادیبی کارروائی کی ہے۔ اب عام مسلمان اس نئے وقف قانون سے بے چین ہے۔ پریشان ہے۔ ملک کے کئی ریاستوں میں احتجاج، مظاہرے ہو رہے ہیں۔ جہاں جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے وہاں احتجاج اورمظاہرے کے لیے پابندیاں نہیں ہیں۔ مگر ملک میں اکثریت ان ریاستوں کی ہے، جہاں بی جے پی بر سر اقتدار ہے۔ وہاں حالات سنگین رُخ اختیار کر سکتے ہیں۔ مودی حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے وقف قانون مسلمانوں کی فلاح کے لیے لایا ہے۔ بلکہ اس نئے قانون کے ذریعہ مسلمانوں کو ایک بار پھر الگ تھلگ کرکے حاشیہ بر دوش کرنے کی سازش رچائی ہے۔ اس لحاظ سے یہ نیا قانون آزاد ہندوستان کی تاریخ کا بدترین سیاسی فریب ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

Author

Arambh Suddi Kannada News True Newses And Stories Telecasting

Experienced journalist focused on global news, trends, and untold stories — with a commitment to accuracy and impact.

0/Post a Comment/Comments