SC to Hear Key Pleas on Waqf Amendment Act on April 16وقف ترمیمی ایکٹ پر 16 اپریل کو سپریم کورٹ میں اہم سماعت

اپریل 16کو سپریم کورٹ میں 

وقف ترمیمی قانون سے متعلق عرضیوں کی سماعت

نئی دہلی، 10 اپریل (حقیقت ٹائمز)

سپریم کورٹ آف انڈیا کی تین رکنی بینچ 16 اپریل کو وقف (ترمیمی) ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی متعددد درخواستوں پر سماعت کرے گی۔ یہ بینچ چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل ہے۔سپریم کورٹ کی سرکاری ویب سائٹ پر جاری کیس لسٹ کے مطابق یہ معاملہ 16 اپریل کو لسٹنگ نمبر 13 کے طور پر مقرر کیا گیا ہے۔مرکزی حکومت نے بھی عدالت عظمیٰ میں کیویٹ درخواست دائر کی ہے تاکہ کوئی بھی عبوری یا حتمی حکم اس کی سماعت کے بغیر جاری نہ کیا جا سکے۔ کیویٹ ایک قانونی عمل ہے جس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہوتا ہے کہ درخواست گزار کی بات سنے بغیر اس کے خلاف کوئی فیصلہ صادر نہ ہو۔

درخواست گزاروں کا موقف

وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کو چیلنج کرنے والے مختلف درخواست گزاروں میں متعدد اراکین پارلیمان، ریاستی اسمبلیوں کے اراکین، مذہبی ادارے، سول سوسائٹی کی تنظیمیں اور غیر سرکاری ادارے شامل ہیں۔ ان میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ، جمعیۃ علماء ہند، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر و رکن پارلیمان اسدالدین اویسی، کانگریس کے محمد جاوید اور عمران پرتاپ گڑھی، عام آدمی پارٹی کے امانت اللہ خان، آزاد سماج پارٹی کے صدر چندرشیکھر آزاد، سماجوادی پارٹی کے ضیاء الرحمٰن برق، DMK کے اے راجہ، انڈین یونین مسلم لیگ، سماسۃ کیرالا جمعیت العلماء، سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) اور "ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس" شامل ہیں۔درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ مذکورہ ترمیمی قانون دستور ہند کے تحت اقلیتوں کو دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قانون کے تحت وقف املاک کے انتظام و انصرام میں حکومت کی غیرضروری مداخلت کی اجازت دی گئی ہے، جو مذہبی اور انتظامی خودمختاری کے منافی ہے۔

اسدالدین اویسی کی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ نیا قانون وقف کی قانونی و تاریخی حیثیت کو متاثر کرتا ہے اور اس کے انتظامی ڈھانچے کو کمزور بناتا ہے۔امانت اللہ خان نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ اس قانون سے مسلمانوں کی مذہبی و ثقافتی خودمختاری متاثر ہوتی ہے اور اقلیتوں کو اپنے مذہبی و فلاحی ادارے چلانے کا بنیادی حق سلب کیا جا رہا ہے۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے متعدد دفعات کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ترمیمی قانون وقف اداروں کی بنیادوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بنے گا، خاص طور پر وہ املاک جو زبانی اوقاف یا غیر تحریری بنیادوں پر قائم ہیں۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ترمیم کو “امتیازی، من مانا اور خارج کرنے والا” قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اقلیتوں کے مذہبی اداروں کے نظم و نسق میں غیر ضروری مداخلت ہے۔

مرکزی حکومت نے اپنے کیویٹ میں اس امر پر زور دیا ہے کہ قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر کوئی بھی فیصلہ اس کی سماعت کے بغیر نہ کیا جائے۔ مرکز کا مؤقف ہے کہ پارلیمان نے مکمل بحث کے بعد یہ ترمیم منظور کی ہے اور اس کا مقصد وقف انتظام میں شفافیت اور جوابدہی کو فروغ دینا ہے۔

یہ قانون پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے بحث کے بعد حال ہی میں منظور کیا گیا تھا اور صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے 5 اپریل کو اسے منظوری دی۔ قانون میں وقف املاک کے ریکارڈ کو ڈیجیٹلائز کرنے، مرکزی ڈیٹابیس تیار کرنے، اور وقف بورڈز کے دائرۂ اختیار و اختیارات میں ترمیم جیسی شقیں شامل ہیں، جن پر مختلف حلقوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

یہ مقدمہ نہ صرف قانونی نقطۂ نظر سے اہمیت کا حامل ہے بلکہ اقلیتوں کے مذہبی و انتظامی حقوق سے جڑے وسیع تر قومی مباحثے سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ملک میں مذہبی اداروں کی خودمختاری کے قانونی دائرے کو مزید واضح کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔

Author

Arambh Suddi Kannada News True Newses And Stories Telecasting

Experienced journalist focused on global news, trends, and untold stories — with a commitment to accuracy and impact.

0/Post a Comment/Comments