The Greased Hands That Keep the World Moving گریس بھرے ہاتھ، جو دنیا کو رواں رکھتے ہیں
byAdministrator-0
پنکچر سازی دوبارہ رفتار اور رواں دواں کرنے کا اہم ذریعہ
ذکی نور عظیم ندوی- لکھنؤ
اگر کوئی عظیم شخصیت جدید ترین ماڈل، چمکتی باڈی، کشادہ سن روف، گرم و ٹھنڈی نشستیں، مصنوعی ذہانت سے لیس نیویگیشن سسٹم، یہاں تک کہ بغیر ڈرائیور کے چلنے والی کسی مہنگی ترین گاڑی پر سوار کسی اہم میٹنگ میں شرکت کے لئے جارہا ہو, اور اچانک گاڑی سے تیز آواز ہو ، وہ رُک جائے یعنی پنکچر ہوجائے تو تمام ٹیکنالوجی، خوبصورتی، فخر و تفاخر اچانک زمین بوس ہو جاتا ہے۔ یقینا "کریڈٹ کارڈ" سے بہت کچھ خریدا جاسکتا ہے، گوگل اور اے آئی پر ہر سوال کا جواب مل سکتا ہے۔ اس کے باوجود اس وقت صرف آپ کی گاڑی ہی نہیں رکتی بلکہ وقت بھی رک جاتا ہے۔اس وقت کوئی بڑا عہدہ دار یا اعلی افسر نہیں بلکہ ایک ایسے کردار کی تلاش ہوتی ہے جسے آپ عام دنوں میں دیکھ کر گاڑی کے شیشے چڑھا لیتے تھے، قریب سے گزرتے ہوئے ناک خود بخود سکڑ جاتی تھی، اب وہی آپ کا مسیحا ہےجو کہیں سڑک کنارے پلاسٹک کی کرسی پر اپنے آلات کے ساتھ نیم دراز، دھوپ سے جھلسا ، کالک سے لتھڑا ، گریس میں لپٹا آپ کے قیمتی وقت، بھرم اور’’امیج ‘‘ کو بچا سکتا ہے۔ اور اگر وہ نہ ملے تو اہم ترین میٹنگیں اور ملاقاتیں سب خواب رہ جائیں۔ اور اس طرح وہ نجات دہندہ بن کر سامنے آتا ہے اور لوگ گھڑی پر نظر ڈال کر، میٹنگ کا وقت یاد کرتے ہوئے ساری امیدیں اور توقعات اسی سادے اور عام کردار سے وابستہ کرلیتے ہیں۔اس وقت آپ کی نگاہیں اُس کے کپڑوں پر نہیں، اُس کے اوزار پر جم جاتی ہیں اور آپ کی زبان میں ایسی عاجزی جوشاید کبھی ’’ بد اخلاق باس‘‘ کے سامنے بھی نظر نہ آئی ہو ’’بھائی، ذرا جلدی کر دیں، بہت ضروری میٹنگ ہے۔۔۔۔، وہ اُٹھتا ہے، ہاتھ جھاڑتا ہے، اوزار اٹھاتا ہے، اور بغیر کسی شکوہ کے، کسی کی حیثیت یا تیور کی پرواہ کئے بغیر خاموشی سےچند منٹوں میں گاڑی کو دوبارہ چلنے کے قابل بنا دیتا ہے۔ لیکن اس میں ایسی بے نیازی جو شاید کسی پروفیسر، افسر یا سیاسی رہنما میں نہ ہو۔ وہ چپ چاپ اپنا کام کرتا ہے، نہ آپ کی گھڑی کی فکر، نہ آپ کی مصروفیت کی دہائی پر توجہ، اُسے معلوم ہے کہ آج آپ "ضرورتمند" ہیں، اور وہ "مسیحا" لیکن اس حقیقت کا کسی بھی طرح اظہار نہیں۔ آپ چلتے چلتے اسے چند روپئے تھماتے ہیں اور اکثر بغیر شکریہ کہے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن اس کی فٖطرت میں مسیحائی ہے وہ زندگی کو مشکل بناتا ہےنہ کسی کی راہ روکتا ہے، بس جب کوئی رک جاتا ہےتو وہ اسے دوبارہ چلنے کے قابل بناتا ہے اور رفتار دیتا ہے۔ اگر یہ عظمت نہیں، تو پھرعظمت کیا ہے؟درحقیقت یہ ہماری روزمرہ زندگی کے ایسے خاموش محافظ ہیں جو ہمارے وقت، نظام، اور ہماری دنیا کی روانی کا ضامن بنتے ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو سڑک پر لمبی لائنیں لگ جائیں، ٹریفک جام ہو جائے، ہر شخص اپنے آپ کو کسی “قومی المیہ” کا حصہ محسوس کرے، شادی میں بارات وقت پر نہ پہنچے، دلہن والے سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ یہاں پہونچنے میں ہی گاڑی پنکچر ہو گئی یہ رشتہ کیا خاک نبھائیں گے؟کیا یہ ممکن ہے کہ ایسی صورت میں لوگ گاڑیوں کو خود ڈھکیلیں ، رکشے دھکے کھائیں ، بائیک والےسواری کو اٹھاکر لے جانے والوں کی تلاش میں سرگرداں نظر آئیں ، اور اگر کبھی خود پنکچر بنانا پڑ جائے تو نہ علم کام آئے نہ انا۔ اور تب اندازہ ہو کہ “گریس والے ہاتھ” اصل میں وہی ہیں جو سفر جاری رکھنے کی طاقت دیتے ہیں۔ اس لئے ذھن سے یہ ہرگز نکلنے نہ دیں کہ گاڑی اس وقت چلتی ہے جب یہ گندے ، بظاہر بے حیثیت اور خاموش ہاتھ اپنا کام کرتے ہیں۔ اور اسی طرح دنیا کے ہر بڑے نظام کے پس پردہ کچھ ایسے چھوٹے مگر عظیم کردار ہوتے ہیں جو اکثر ہماری نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ در اصل کام کو’’بڑا‘‘ یا ’’چھوٹا‘‘ کہنے سے پہلے اس کی ضرورت و افادیت سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچئے اگر کسی کی وجہ سے سماج بکھر جائے، لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کردیا جائے۔ ان کی جائیدادیں لیکر چھین کر ’’اپنوں‘‘ کو بھی دو ٹکڑے دینے کے بجاۓ چند بڑے کاروباری دوستوں کو نوازنے کی منصوبہ بندی مخفی نہ رہ پائے، عوام کوصرف خواب دکھایا جائے، ملک میں افرا تفری اور انتشار کی پرواہ نہ کی جائے اور عوام کے درمیان تفریق کرنے والے کالے قانون پاس کرانے کی غیر دستوری اور غیر آئینی کوششیں اپنی انتہا کو پہونچ جائیں تو ایسا کرنے والا کردار ’’عظیم‘‘ نہیں ’’ اعظم‘‘، اور بھکت اسے وشو گرو قرار دیں اور جو زمین پر بیٹھ کر ٹائر جوڑ ے، رکی ہوئے گاڑی اور اس کے ذریعہ ملک اور اس کے تمام باشندوں کو رفتار دے کر رواں دواں کرے تو وہ اس ’’اعظم‘‘ اور اس کی ٹولی کی نظر میں ذلیل و خوار ہی نہیں بلکہ اعلانیہ “کمتر” قرار دیا جائے؟۔یہ احساسِ تفاخر ہمارے معاشرہ اور خاص طور پر حکمراں طبقہ کے رگ و پے میں اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ ہمیں بظاہر عام اور سادہ ملبوسات میں پنکچر بنانے والے لیکن عظیم کردار والے حقیر، اورمختلف ظالمانہ اور غیر منصفانہ کاروائیوں کے ذریعہ عوام کی جیبوں کی صفائی کرنے والے اورلوگوں کے حقوق سلب اور غصب کرنے والے "اعلی" و "اعظم" نظر آتے ہیں۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ اگر کسی دن تھوڑی دیر کیلئے پنکچر بنانے والے نہ ہوں ، سب کے قدم رک جائیں، کاروبار متأثر ہوجائے ، عزیزوں اور قریبیوں سے جائز و ناجائز ملاقاتیں ملتوی یا منسوخ ہو جائیں، باراتیں دیر سے پہنچیں، اپوائنٹمنٹس کینسل ہو جائیں۔ سڑکوں پر گاڑیاں، اور لوگ جھنجھلاہٹ میں ایک دوسرے کو کوستے نظر آئیں اور پورے شہر پر اضطراب کی دھند چھا جائے، بلکہ اگر کسی بل پر ووٹنگ ہو ،مخالف پارٹی کا ممبر سودا ہونے کے بعد بھی ووٹ دینےاور پھر اپنی قیمت اور انعام سے محروم رہ جائے۔ تب شاید ہمیں سمجھ میں آئے کہ جو کردار ہمیں معمولی لگتا ہے، وہ دراصل کتنا بنیادی ہے۔کیا یہ ناقابل تردید حقیقت نہیں کہ یہ عظیم کردار اور خدمات فراہم کرنے والےلوگ نہ کبھی شکایت کرتے ہیں۔ نہ کسی عزت کی تمنا، بس خاموشی سے اپنا کام کرتے ہیں، اور ہر آنے والے کے لیے وہی خلوص، خاموشی، اور محنت لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں جس کی اس وقت لوگوں کو سب سے بڑی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے ہاتھ گریس آلود ضرور ہوتے ہیں، مگر ان کے دل بڑے سے بڑے سرکاری عہدہ دار، افسر اوردفتر سے زیادہ شفاف ہوتے ہیں۔ ان کے چہرے دھول سے اَٹے ہوتے ہیں، مگر ان کی خدمات ہماری زندگی کی روشن ترین حقیقت ہوتی ہیں۔یہ وہ عظمت ہے جو نہ ٹی وی پر آتی ہے، نہ سوشل میڈیا پر بلکہ صرف حقیقی، زمینی ، خاموش اور بے لوث ہے۔اس لیے آپ جس مقام پر پہونچ جائیں کم از کم ان کی توہین اور تحقیر تو مت کیجئے، زندگی میں نہ جانے کب، کہاں، اور کیسے ہمیں انہی گریس والے ہاتھوں کی ضرورت پڑ جائے۔ اور تب شاید ہماری ظاہری چمک دمک سے زیادہ، وہ میلی کچیلی انگلیاں ہمیں منزل کی طرف لے جانے اور دوبارہ رفتار دینے کا سبب بنیں۔ کیونکہ دنیا میں ہر مسافر، چاہے وہ کسی عہدہ پر ہو یا کسی منصب پر، اُس وقت تک رواں دواں ہے جب تک اُس کا پہیہ سلامت ہے۔ اور پہیہ سلامت ہے تو بس انہی چند سادہ، خاموش، اور عظیم لوگوں کے دم سے۔ خوب یاد رکھئے ایسے کردار کی توہین اور تحقیر کرنے والوں کو اپنی انا کا پنکچر بنوانے ، اور گریس والے ہاتھوں کو سلام پیش کرنا چاہئے۔ کیونکہ دنیا انہی ہاتھوں سے چلتی ہے، جو خاموشی سے، جھک کر، پسینے میں شرابور، دوسروں کو روانی اور رفتارعطا کرتے ہیں نہ کہ گھمنڈ اور تکبر سے۔
zakinoorazeem@gmail.com
Arambh Suddi Kannada News True Newses And Stories Telecasting
Experienced journalist focused on global news, trends, and untold stories — with a commitment to accuracy and impact.
Post a Comment