Urdu: A Language of Love, an Identity of India اردو ہماری تہذیب کی وارث، تعصب کا جواب عدلیہ سے
byAdministrator-0
اُردو سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ
اندھیرے میں روشنی کی کرن
محمد اعظم شاہد
ان دِنوں اُردو زبان سے متعلق سپریم کورٹ کے توصیفی اور حوصلہ افزا فیصلہ کا چرچہ زوروں پر ہے۔ اخبارات، ٹیلی ویژن، سوشیل میڈیا پر اس فیصلے سے متعلق تاثرات اور تبصروں کی بھر مار ہے۔ مہاراشٹرا کے ضلع اکولہ کے شہر پاتور کی بلد یہ (میونسپالٹی) نے اپنی عمارت پر اُردو میں بھی سائن بورڈ لگوایا ہے۔ پاتور ٹاؤن کی سابق میونسپل کو نسلر ورشا تائی نے بلدیہ کی عمارت پر نصب کر دہ سائن بورڈ میں اُردو زبان کے استعمال کو چیلنج کرتے ہوئے مقدمہ دائر کیا تھا۔ مقامی عدالتوں نے بلدیہ کے اقدام کو درست قرار دے دیا تھا۔ مگر ورشا تائی نے مہاراشٹر لوکل اتھارٹیز (سرکاری زبانیں) ایکٹ 2022 کا حوالہ دیتے ہوئے تاویل پیش کی تھی کہ سرکاری عمارتوں پر اور دفتروں میں صرف مراٹھی زبان ہی کا استعمال جائز ہے۔ لیکن سپریم کورٹ میں داخل اس مقدمہ پر فیصلہ سناتے ہوئے دور کنی ججوں کی بیچ میں جسٹس سیدھا نشو دھو لیا اور جسٹس کے ونود چندرن نے ورشا تانی کے دعوے کو مستر د کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ قانون اور نہ ہی کوئی دوسری قانونی شق اُردو کے استعمال پر پابندی عائد کرتی ہے۔ فیصلہ میں کہا گیا کہ آئین ہند کے آٹھویں شیڈول میں شامل زبانوں میں مر اٹھی اور اردو زبانوں کو برابر کی حیثیت حاصل ہے۔بلدیہ کے سائن بورڈ پر اُردو کا استعمال مقامی لوگوں کی سہولت اور رابطے کے لیے کیا گیا ہے۔ا س میں کوئی سیاسی ایجنڈا یا مذہبی معاملہ شامل نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے نے تنگ نظر، مفاد پرست اور نفرت کا ایجنڈا عام کرنے والوں کے اردو سے جڑے متعصبانہ رویہ کو اپنے دلائل سے کمزور کر دیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ اُردو کوئی غیر ملکی زبان نہیں ہے۔ یہ ہندوستان ہی میں پیدا ہوئی، یہیں پلی بڑھی اور پروان چڑھی۔ یہ ہند آریائی زبان ہے، جو ہمارے تکثیریتی ثقافت کی علمبردار ہے۔ اُردو ہماری مشتر کہ گنگا جمنی تہذیب کی وراثت کی امین ہے۔ فیصلہ میں کہا گیا کہ اردو محبت کی زبان ہے، دلوں کو جوڑنے والی زبان ہے۔ یہ محض ایک زبان نہیں بلکہ ایک تہذیب ہے۔ پورے ملک میں رابطے کی زبان ہے۔ اُردو جس کے بولنے والے تمام مذاہب کے ماننے والے ہیں۔ کسی ایک خاص مذہب اور طبقے سے اس زبان کو جوڑ انہیں جاسکتا۔ یہ تاریخی فیصلہ سنانے والے ججوں نے اُردو کی ہمہ گیری اور افادیت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ میں بالخصوص عدلیہ اور فوجداری محکموں میں اُردو کے کئی الفاظ آج بھی استعمال ہوتے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے اُردو زبان سے متعلق اس فیسے بار پھر اُردو زبان کی عظمت کو بالخصوص اُردو سے نفرت کرنے والوں کو آئینہ دکھایا ہے۔
ایسے وقت میں جبکہ اُردو کو ختم کرنے کی مذموم کوششیں زعفرانی حکومتوں کو رٹ کا فیصلہ ان احباب کے لیے لمحہ فکر یہ ہے۔ اور Eye Openerہے، جو اُردو کو باہر کی یا غیر ملکی زبان قرار دیتے ہیں۔ مغربی بنگال، بہار، تلنگانہ اور اتر پردیش میں اردو دوسری سرکاری Second Official Language ہے اور کئی ریاستوں میں جہاں اُردو زبان بولنے والوں کی تعداد مقامی ریاستی زبانوں کے بعد دوسرے نمبر پر آتی ہے وہاں اردو کودوسری سرکاری زبان بنانے کا پورا واجبی جواز ہے۔ مگر تنگ نظری اور فرقہ پرستی نے رکاوٹیں پیدا کی ہیں۔ اکثر مسلمانوں کے ہوٹلوں میں قرآنی آیات یا پھر ماشا اللہ کے طغرے دیواروں پر لگے دیکھ کر شر پسندوں نے و اوایلا مچایا ہے کہ یہ اسلامی ممالک کا چلن ہے،یہاں نہیں چلے گا۔ ان دنوں ملک کے کئی شہروں میں جہاں اُردو کا چلن ہے اور اردو بولنے والے کثرت نہیں بستے ہیں وہاں کے سائن بورڈ سے اُردو غائب ہو رہی ہے۔ بہار اور تلنگانہ میں سرکاری طور پر اُردو کا استعمال لائق تحسین اور باعث تقلید رہا ہے۔ اتر پردیش میں اُردو کو ختم کرنے کی ممکنہ حد تک کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ اُتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی نے وہاں کی اسمبلی میں اردو کے تعلق سے، جو متنازعہ اور مذموم بیان دیا تھا، اس کی بھر پور مذمت ہوتی رہی۔ اُردو کو کچھ ملاؤں اور مدرسوں کی زبان ردینے والے یوگی کی معلومات پر ترس آتا ہے۔ جس گورکھپور سے یوگی کا تعلق ہے اس شہر سے رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری جیسے اُردو کے مشہور شاعر گزرے ہیں۔ اور لکھنو میں برج نارائن چکبست اور دیا شنکر نسیم پنڈت آنند نارائن ملا رہے ہیں۔ جسٹس آنند نارائن ملا اردو کے ممتاز شاعر اور دانشور گزرے ہیں۔جنھوں نے ایک مرتبہ بر ملا کہا تھا کہ بھلے میں اپنا مذہب چھوڑ سکتا ہوں مگر میری ماں سے، جس زبان اُردو میں نے لوریاں سنی تھیں وہ زبان ہرگز چھوڑ نہیں سکتا۔ جتنے مسلمان شاعر، ادیب، نقاد اور صحافی اُردو کے رہے ہیں اتنے ہی غیر مسلم احباب بھی رہے ہیں،جن میں ہندو سکھ، چین اور دیگر مذاہب کے پیروکار بھی شامل ہیں۔
آج اُردو کے نام پر قومی سطح پر قائم کردہ قومی کونسل برائے فروغ زبان اُردو (این سی پی یو ایل) پر بھی مرکزی حکومت کی توجہ نہیں کے برابر ہے۔ چند ریاستوں میں،جہاں اُردو اکیڈمیاں قائم کی گئیں وہاں صورتحال پوری طرح اطمینان بخش نہیں ہے۔ اُردو بولنے والے سیاسی نمائندوں کی بے حسی بھی اُردو کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ کرناٹک میں پچھلے بی جے پی سرکار کی چار سالہ معیاد میں اُردو اکیڈمی کی تقلیل التوا کا شکار رہیں۔ ایک مرتبہ کرنا ٹک کے گورنر راج بھردواج نے ایک تقریب میں ریاستی حکومت (بی جے پی سرکار) کو اُردو اکیڈمی کی تشکیل کرنے کا مشورہ دیا تو سوشیل میڈیا پر ان پر مسلسل تنقید ہونے گئی۔ ویسے ہر زبان کی اپنی اپنی الگ ریاست ہے۔ مگر اُردو کسی خاص ریاست، یا جغرافیائی حدود میں مقید نہیں ہے بلکہ پورے ملک میں بولی اور پسند بھی کی جاتی ہے۔ اُردو زبان کی حلاوت، شیرینی اور بلاغت کافی زمانہ قدردان رہا ہے۔ ہندی کے نام پر اُردو کا بہ کثرت استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ ہندی اُردو دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ مگر ہمارے ہاں ہندی کو سسنکرت کے مشکل الفاظ سے جوڑ کر اس زبان کوعلیحدہ شناخت بنانے کی کوشش کی جارہی ہیں۔ جب ہندی سسنکرت میں ڈھال کر بولی جاتی ہے تو لگتا ہے کہ یہ عوام کی نہیں بلکہ خواص کی زبان ہے۔اُردو کی دشمنی میں مشکل ہندی کومسلط کرنے کی سازشیں زوروں پر ہیں۔ کچھ لوگ ہیں ہمارے ہاں، جو مشہور شخصیات (Celeberities) میں وہ مشکل ہندی کا استعمال کرتے اُردو زبان کی آفرینی سے آنکھیں چراتے رہے ہیں۔ ہمارے اس عظیم ملک کی تاریخ کا یہ ایک المیہ بھی رہا ہے کہ تحریک آزادی اور حصول آزادی کے دوران اُردو نے،جو تاریخی کردار ادا کیا تھا اس کو آزاد ہندوستان میں فراموش کیا گیا ہے۔ اُردو سے حسد کرنے والے حاسدوں کی ایک کھیپ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے۔ میرے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران اُردو کے نقاد پرو فیسر گوپی چند نارنگ نے اُردو سے متعلق کہا تھا کہ جو شئے جس قدر حسین ہوگی اس حد تک اپنے حاسد پیدا کرے گی۔ ایک اور مرتبہ انھوں نے تاریخی جملہ کہا تھا کہ ''اُردو ہندوستانی زبانوں کا تاج محل ہے۔ ''اب جبکہ تاج محل میں مندر تلاشنے کی کارستانیاں ہوتی رہی ہیں۔ ایسے میں اُردو زبان کی ہندوستانیت اور اس کی مشتر کہ وارثت پر سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے سے اس زبان کی شناخت اور اس کی افادیت کا مدلل اعتراف تعصب کے اندھیاروں میں نئی روشنی کے مترادف ہے۔
Arambh Suddi Kannada News True Newses And Stories Telecasting
Experienced journalist focused on global news, trends, and untold stories — with a commitment to accuracy and impact.
Post a Comment