Muslim Representation in UPSC Results Drops Sharply, Sparks Concern مسلمانوں کی سول سروسز میں کم ہوتی نمائندگی پر ماہرین پریشان

یو پی ایس سی نتائج میں مسلمانوں کی نمائندگی میں  خطرناک حد تک کمی

 ماہرین اور سماجی رہنما تشویش میں مبتلا

نئی دہلی۔ 2 مئی (خصوصی رپورٹ/ حقیقت ٹائمز)

یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی) سول سروسز امتحان 2024 کے نتائج کا اعلان‌ گزشتہ ہفتے ہوچکا ہے۔ اس سال مجموعی طور پر 1009 امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے، جن میں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے امیدوار شامل ہیں۔ تاہم، اس مرتبہ مسلم امیدواروں کی نمائندگی میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے، جس پر مختلف حلقوں میں غور و فکر جاری ہے۔سول سروسز کے امتحانات، جن کے ذریعے آئی اے ایس، آئی پی ایس، آئی ایف ایس سمیت دیگر اعلیٰ سرکاری عہدوں پر تقرری کی جاتی ہے، کو شفاف اور مساوی مواقع فراہم کرنے والے امتحانات سمجھا جاتا ہے، لیکن اس سال کے نتائج نے اقلیتی طبقات، بالخصوص مسلمانوں، کو شدید مایوسی میں مبتلا کر دیا ہے۔اطلاعات کے مطابق اس سال صرف 30 مسلم امیدوار کامیاب ہو سکے ہیں، جو کل کامیاب امیدواروں کا تقریباً تین فیصد بنتے ہیں۔

گزشتہ برسوں کے مقابلے میں یہ تناسب نسبتاً کم ہے۔ مثال کے طور پر 2023 میں تقریباً 50 مسلم امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی، جبکہ 2022 میں یہ تعداد 42 تھی۔ اس تناظر میں 2024 کا نتیجہ کمیونٹی کے لیے ایک غور طلب پہلو بن گیا ہے۔جو اس کمیونٹی کی سول سروسز میں شمولیت کے خواب کو چکناچور کرنے کے مترادف ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس بار ابتدائی 100 کامیاب امیدواروں میں صرف دو مسلم امیدوار شامل ہو پائے ہیں۔ ارم چودھری، جو آل انڈیا رینکنگ میں 40 ویں مقام پر رہی ، اور فرخندہ قریشی، جو 67ویں پوزیشن پر کامیاب رہیں، ان دونوں خواتین نے یقینی طور پر ملت کے لیے فخر کا موقع فراہم کیا ہے۔ لیکن سوال صرف کامیابی کا نہیں، بلکہ اجتماعی نمائندگی کا ہے، جو اس سال افسوسناک حد تک کمزور دکھائی دیتی ہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دیگر اداروں کے سابق طلبہ اور اساتذہ کے درمیان اس خبر کے بعد شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ماہرین تعلیم، پالیسی تجزیہ کاروں اور کوچنگ اداروں کے مطابق یہ کمی کئی وجوہات کا نتیجہ ہو سکتی ہے، جن میں تعلیمی مواقع کی عدم مساوات، مالی وسائل کی کمی، مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری میں محدود رہنمائی، ایک عمومی احساسِ محرومی نے اس نہج تک پہنچایا ہے، جہاں ان کی مجموعی نمائندگی مسلسل گرتی جا رہی ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ رجحان محض ایک تعلیمی اعداد و شمار کا معاملہ نہیں بلکہ اس پر مزید تحقیق اور پالیسی جائزے کی ضرورت ہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دیگر اداروں سے وابستہ افراد نے اس رجحان کو تعلیمی نظام کی وسیع تصویر کا حصہ قرار دیا ہے۔ بعض مبصرین کا ماننا ہے کہ کامیاب امیدواروں کی مجموعی تعداد اور ان کے سماجی پس منظر کا باقاعدہ تجزیہ کیے بغیر کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا قبل از وقت ہوگا۔یو پی ایس سی جیسے امتحانات میں کامیابی کے لیے سخت محنت، مستقل مزاجی اور مناسب تیاری درکار ہوتی ہے۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ حالیہ برسوں میں بعض مسلم طلبہ نے ذاتی کوششوں سے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر تعلیمی اور مالی وسائل میسر ہوں تو ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کامیاب ہو سکتے ہیں۔اس تناظر میں بعض تعلیمی ماہرین نے حکومت اور غیر سرکاری اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اقلیتی طبقات کے لیے اعلیٰ تعلیم اور مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کے ضمن میں مخصوص اسکالرشپ، کوچنگ اور مشاورتی مراکز کا دائرہ وسیع کریں تاکہ آنے والے برسوں میں تمام طبقات کی مساوی نمائندگی ممکن ہو۔یو پی ایس سی کے نتائج ایک وسیع تر سماجی و تعلیمی پس منظر کی عکاسی کرتے ہیں، جن پر پالیسی سطح پر تجزیہ اور مسلسل نگرانی کی ضرورت ہے۔ مسلم امیدواروں کی نمائندگی میں کمی محض ایک اعداد و شمار نہیں بلکہ ایک رجحان ہے، جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں اس میں بہتری لائی جا سکے۔

ملک بھر میں مسلم تنظیموں اور سول سوسائٹی نے اس سلسلے میں درج ذیل مطالبات پیش کیے ہیں جن میں یو پی ایس سی کے انتخابی عمل میں شفافیت ،اقلیتی طلبہ کے لیے خصوصی رہنمائی اور اسکالرشپ پروگرامز ،امتحانات میں غیر محسوس امتیاز کی روک تھام ،حکومت کی سطح پر مساوی مواقع کو یقینی بنانے کے اقدامات شامل ہیں۔یو پی ایس سی نتائج میں مسلم امیدواروں کی گھٹتی ہوئی تعداد نے ایک بڑا سوال اٹھا دیا ہے کہ کیا ہندوستان کی سول سروسز اب بھی تمام طبقات کے لیے مساوی مواقع کا دروازہ کھلا رکھتی ہیں؟ اس سوال کا جواب صرف حکومت یا یو پی ایس سی نہیں، بلکہ سماج کو بھی دینا ہوگا۔

Author

Arambh Suddi Kannada News True Newses And Stories Telecasting

Experienced journalist focused on global news, trends, and untold stories — with a commitment to accuracy and impact.

0/Post a Comment/Comments