Only Centre Can Conduct Caste Survey, Says BJP Leader مرکز کا سروے معتبر، ریاستی رپورٹ بے کار: آر اشوک
byAdministrator-0
ریاستی مردم شماری پر بی جے پی کا اعتراض: 150 کروڑ کی رپورٹ بے فائدہ قرار
بنگلورو، یکم مئی (حقیقت ٹائمز)
بی جے پی کے سینئر لیڈر اور ریاستی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر آر. اشوک نے کانگریس پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وہ واضح کرے کہ اپنی سابقہ حکومت کے دوران اس نے ذات پات کی مردم شماری کیوں نہیں کرائی۔ انہوں نے اس معاملے پر وزیر اعلیٰ سدارامیا کو براہ راست چیلنج دیا ہے۔ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آر. اشوک نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے سماجی انصاف کو فروغ دینے کے لیے ذات پر مبنی مردم شماری کا فیصلہ لیا ہے۔ لیکن آزادی کے بعد سے نہ پنڈت نہرو، نہ اندرا گاندھی اور نہ ہی راجیو گاندھی نے ذات پات کی مردم شماری کرائی۔ انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کے پاس تو اس بارے میں عام فہم بھی نہیں ہے۔ منموہن سنگھ کے دور حکومت میں تو اس تجویز کو رد کر دیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی نے خواتین کو ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا ہے، جو 2029 سے نافذ ہوگا اور اس میں مردم شماری اور ذات پات کا شمار اہم کردار ادا کرے گا۔ ایسی اصلاحی کوششوں کے لیے میں وزیر اعظم کو مبارکباد دیتا ہوں۔سدارامیا حکومت پر تنقید کرتے ہوئے آر. اشوک نے کہا کہ 2015 میں جو ذات پات پر مبنی مردم شماری کی گئی، اس رپورٹ کو 10 سال بعد پیش کیا گیا ہے۔ اگر کانگریس کو اتنی فکر تھی تو اس نے اس وقت اس پر توجہ کیوں نہیں دی؟ اب سدارامیا بی جے پی پر تنقید کر رہے ہیں، مگر انہیں پہلے اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ اگر ملک میں ذات پات کی مردم شماری ممکن نہیں تھی تو کانگریس عوام سے معافی مانگے اور سدارامیا وضاحت کریں کہ کانگریس نے یہ کیوں نہیں کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ مردم شماری کرانا صرف مرکز کا اختیار ہے، ریاستوں کو اس کا قانونی اختیار حاصل نہیں۔ پھر بھی ریاستی حکومت نے 150 کروڑ روپے خرچ کر کے جو رپورٹ تیار کی، اس کا انجام کیا ہوگا؟ عوام اس سوال کا جواب چاہتے ہیں۔ کئی سوامی جی حضرات نے خود کہا ہے کہ مردم شماری کے دوران ان کے گھروں میں کوئی نہیں آیا۔ تو ایسی مردم شماری کی صداقت اور اہمیت کیا رہ جاتی ہے؟آر. اشوک نے کہا کہ ذات پات کی رپورٹ کے خلاف ریاست بھر میں مختلف طبقات احتجاج کر رہے ہیں اور کچھ طبقات تو اپنی مردم شماری کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ خود کانگریس کے وزراء بھی اس رپورٹ کی مخالفت کر چکے ہیں۔ سدارامیا اب اقتدار ختم ہونے کے وقت اس رپورٹ کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ مرکز کی مردم شماری کو الیکشن کمیشن استعمال کرے گا، مگر ریاستی رپورٹ ردی کی ٹوکری میں جائے گی۔ سدارامیا نے جو رپورٹ اپنے گھر میں بیٹھ کر تیار کرائی ہے، وہ کسی بھی طرح سرکاری حیثیت نہیں رکھتی۔آخر میں آر. اشوک نے حالیہ ایک واقعے پر بھی تبصرہ کیا جس میں ایک بس ڈرائیور نے چلتی بس میں نماز ادا کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر بس چل رہی ہو اور ڈرائیور نماز پڑھے تو مسافروں کی جانوں کا کیا ہوگا؟ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس ڈرائیور کو فوری طور پر برخاست کیا جائے۔ ساتھ ہی انہوں نے الزام لگایا کہ سدارامیا مسلمانوں کی ایک حالیہ میٹنگ میں شریک ہو کر ان کے ساتھ ہونے کا وعدہ کر چکے ہیں، اور جنگ سے متعلق اپنے بیان پر بعد میں یو ٹرن لے چکے ہیں۔کانگریس میں اندرونی اختلافات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اشوک نے کہا کہ ڈی کے شیوکمار اور سدارامیا الگ الگ کانگریس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وزراء تِمماپور، سنتوش لاڈ جیسے لوگ پاکستان کے میڈیا میں تو مشہور ہیں، مگر ریاست میں ان کا کوئی مقام نہیں ہے۔
Arambh Suddi Kannada News True Newses And Stories Telecasting
Experienced journalist focused on global news, trends, and untold stories — with a commitment to accuracy and impact.
Post a Comment