AIMPLB Wakes Up to Waqf Bill, Faces Criticism Over Delayمسلم پرسنل لا بورڈ کی بیداری مہم، دیر سے شروع ہونے پر سوالات
byAdministrator-2
وقف ترمیمی بل کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مہم کا اعلان
عوامی حلقوں میں تاخیر اور مؤقف پر سوالات
بنگلور 9 اپریل (حقیقت ٹائمز)
چپ رہوگے تو مٹ جاؤ گے، لہٰذا بولنا پڑے گا – معروف شاعر کے اس مصرعے کو بنیاد بنا کر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے آخرکار وقف ترمیمی بل کے خلاف اپنی مہم کا آغاز کیا ہے۔ تاہم، اس کی تاخیر اور ابتدائی خاموشی اور تحریک کے طریقۂ کار پر مختلف حلقوں کی جانب سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
جب وقف ایکٹ میں ترمیم سے متعلق بل پہلی مرتبہ پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا، تب ہی ماہرین، سماجی کارکنوں اور مسلم حلقوں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔بعدازاں ملک کے مختلف حصوں میں ترمیمی قانون کے خلاف ازخود عوامی احتجاج دیکھنے میں آئے، خاص طور پر کرناٹک، مہاراشٹر، گجرات ،دہلی اور اتر پردیش جیسے علاقوں میں۔ ان احتجاجات کے دوران پولیس کی سختی، ایف آئی آرز، اور متعدد مقامات پر گرفتاریاں ہوئیں۔ کئی مقامی رہنماؤں اور نوجوانوں کو حکمران جماعت کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان تمام حالات کے باوجود، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی خاموشی نمایاں رہی، جس نے اس اہم قومی معاملے پر کوئی مؤثر موقف اختیار نہیں کیا۔اب جبکہ بل پارلیمنٹ میں منظور ہو چکا ہے اور قانونی شکل اختیار کر چکا ہے، بورڈ کی جانب سے اس کے خلاف مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس وقت مہم کی کامیابی یا اثر انگیزی پر سوالات کا اٹھنا فطری ہے۔ اگر یہ کوشش بل کی منظوری سے قبل یا فوری بعد کی جاتی تو اس کا اثر ممکنہ طور پر زیادہ نمایاں ہو سکتا تھا۔ موجودہ مرحلہ میں، یہ مہم زیادہ تر علامتی احتجاج کی صورت اختیار نہ کر جائے، اس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنی نئی مہم میں ملک گیر سطح پر عوامی شعور بیداری، دستخطی مہم، مساجد میں جمعہ کے خطبات کے ذریعے آگاہی، اور وقف قوانین کی اہمیت پر مضامین شائع کرنے جیسے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ بورڈ کے مطابق وہ تمام دینی و سماجی اداروں، ائمہ کرام، علماء، اور قانونی ماہرین کو ساتھ لے کر ایک مربوط تحریک کھڑی کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ اس کے تحت، متعلقہ ریاستوں میں مقامی سطح پر علماء بورڈ اور وقف ماہرین کے ساتھ مشاورتی اجلاس کا انعقاد بھی شامل ہے۔اس مہم کا مقصد حکومت کو اس قانون پر نظرثانی پر مجبور کرنا اور دستور میں دی گئی اقلیتوں کی مذہبی آزادی، ادارہ جاتی خودمختاری اور املاک کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ بورڈ کا یہ بھی ماننا ہے کہ موجودہ ترمیم سے وقف بورڈز کی خودمختاری بری طرح متاثر ہوگی، اور سرکاری افسران کو غیر ضروری اختیارات حاصل ہوں گے، جو کہ دینی اداروں کے لیے باعث تشویش ہے۔
اس ترمیمی قانون پر نہ صرف حکومت کی خاموشی قابلِ غور ہے بلکہ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے بھی کوئی ٹھوس مخالفت سامنے نہیں آئی، جس سے مسلم سماج میں مایوسی پائی جا رہی ہے۔ مختلف حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون نہ صرف دستور کے آرٹیکل 26 اور 29 کی خلاف ورزی کرتا ہے بلکہ اقلیتی کمیونٹی کے اعتماد کو بھی مجروح کرتا ہے۔چونکہ وقف جائیدادیں مسلمانوں کی عبادات، تعلیم، خدمت خلق اور فلاحی کاموں کے لیے وقف کی جاتی ہیں، ان پر سرکاری مداخلت یا کنٹرول ایک حساس مسئلہ بن جاتا ہے۔ ماہرین قانون کا ماننا ہے کہ اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو دیگر اقلیتی ادارے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کی موجودہ کوشش اپنی جگہ اہم ہے، مگر اس کے دیر سے آغاز نے ایک خلا پیدا کر دی ہے، جسے بھرنے کے لیے سنجیدہ، متحد اور مسلسل جدوجہد درکار ہوگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم قیادت وقتی ردعمل سے ہٹ کر ایک طویل مدتی حکمت عملی مرتب کرے، جس میں قانونی لڑائی، عوامی دباؤ، میڈیا کے ذریعے آواز بلند کرنا اور جمہوری ذرائع سے انصاف کی کوشش شامل ہو۔پوری قوم کو اس بات کا احساس دلانا ضروری ہے کہ وقف صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ ہندوستانی آئین میں دی گئی اقلیتوں کے حقِ خود ارادیت اور مذہبی آزادی کا مسئلہ ہے۔ آئینی، قانونی اور جمہوری دائرے میں چلنے والی اس پر امن مہم کے دوران اگر شفافیت، جوابدہی اور عوامی شرکت کو یقینی بنایا جائے تو شاید تاخیر کے باوجود اس تحریک کو ثمر آور بنایا جا سکے۔
Arambh Suddi Kannada News True Newses And Stories Telecasting
Experienced journalist focused on global news, trends, and untold stories — with a commitment to accuracy and impact.
Allah hamsab ku kamiyabi de aameen summa aameen
ReplyDeleteAllah hamsab ku kamiyabi de
ReplyDeletePost a Comment