جنگ بندی پر اپوزیشن کے تلخ سوالات اور پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے مطالبہ
سرفراز احمد قاسمی حیدرآباد
رابطہ: 8099695186
یہ بات بالکل درست ہے کہ جنگ کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوسکتی بلکہ جنگ خود ایک بڑا مسئلہ ہے،جنگ زدہ ممالک کے متاثرہ لوگوں کی زندگیوں کو دیکھئے اور ان سے پوچھئے تو وہ بتائیں گے کہ جنگ کیا ہوتی ہے؟ اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری کے نائب ترجمان فرحان حق نے ہندوستان پاکستان حالیہ کشیدگی کے تناظر میں کہا تھا کہ دنیا جنگ کو برداشت نہیں کرسکتی،ہندو پاک کے مابین انتہائی کشیدہ صورتحال کے بعد جنگ بندی تو ہو گئی ہے دونوں ملکوں کے مابین فوجی کاروائیاں روک دی گئی ہیں اور سرحدات پر صورتحال میں استحکام پیدا ہوا ہے حالانکہ پاکستان کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ابھی تک چل رہی ہے تاہم ہندوستان اس صورتحال سے موثر ڈھنگ سے نمٹ رہا ہے،جہاں تک پہلگام حملہ اور ما بعد صورتحال کا سوال تھا سارے ملک نے ایک رائے ہو کر ملک کی مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے اپنی تائید و حمایت کا اظہار کیا تھا،ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے بھی آل پارٹی اجلاس میں حکومت کو ہر فیصلے میں تائید فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا،پاکستان اور دہشت گردوں کے خلاف سخت ترین کاروائی کرنے کی مانگ کی گئی تھی سارے ملک نے ایک جٹ ہو کر انتہائی مستحکم موقف اختیار کیا تھا جس کے نتیجے میں دہشت گردوں اور اس کے سرپرستوں کے حوصلے پست ہو گئے۔
اب جب کہ دونوں ملکوں کے مابین جنگ بندی ہو گئی ہے فوجی کاروائیوں کا سلسلہ رک گیا ہے اور ملک کے عوام مسلح افواج کے فخر کا اظہار کررہے ہیں تو کچھ گوشوں کی جانب سے جنگ اور اس دوران کی گئی مسلح افواج کی کاروائیوں سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ دعوی یہ کیا جا رہا ہے کہ وزیراعظم مودی کی حکومت میں فوج نے یہ کارروائی کی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت چاہے جس کسی کی بھی ہو فوج اپنی طاقت کا بہر صورت مظاہرہ کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی،حکومت چاہے جس کسی کی رہی ہو فوج نے ملک کی سرحدات کی حفاظت کے لئےاپنی جانوں کی قربانی پیش کرتے ہوئے دی ہے حکومت چاہے جس کسی بھی پارٹی یا لیڈر کی رہی ہو دشمنوں پر ہندوستانی فوج کا رعب دبدبہ چھایا رہا ہے،ایسا بالکل نہیں ہے کہ ہماری فوج سیاسی سرپرستی میں کام کرتی ہے،ہماری افواج ملک کی حفاظت کے لیے کام کرتی ہے اپنے اصولوں کے مطابق جدوجہد کی جاتی ہے اور اپنی دلیری اور جانبازی کے ذریعے دشمنوں کے چھکے چھڑاتی ہے ماضی میں بھی ایک سے زائد مواقع پر جب دوسری حکومتیں تھی ہماری افواج نے انتہائی بہادری سے کام کیا ہے،پاکستان کو تقسیم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے پاکستان کے ساتھ ماضی کی جنگوں میں بھی ہماری افواج نے کامیابی کے جھنڈے لہرائے ہیں،اسی لیے فوجی کاروائیوں کو سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے سے گریز کیا جانا چاہیے،سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے فوج کی طاقت کو کسی ایک لیڈر یا حکومت تک محدود کرنے سے گریز کیا جانا چاہیے کیونکہ ایسا کرنا ملک کی بد خدمتی ہوگی،ہر ہندوستانی اپنے ملک اور اپنی سرحدات کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگا دینے کے لیے تیار ہے کسی بھی حکومت کو مسلح افواج کے کارناموں کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی جانی چاہیے اور نہ ہی اس کی اجازت دی جانی چاہیے اگر کوئی جماعت یا حکومت اس کا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو ملک کے عوام کو انھیں سبق سکھانے کی ضرورت ہے،سیاست کرنے کے لیے دیگر کئی مسائل ہو سکتے ہیں،لیکن قومی سلامتی اور مسلح افواج کے کارناموں کو سیاسی فائدے کے لیے ہرگز استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے پیر 12 مئی کی شب رات آٹھ بجے قوم سے خطاب کرتے ہوئے تقریبا 20 دن کی طویل خاموشی توڑی مگر اس خطاب میں نہ وہ وضاحتیں تھیں جن کی قوم کو شدید ضرورت تھی نہ وہ شفافیت جس کی بین الاقوامی سطح پر توقع کی جا رہی تھی جب ملک کے ایک جانب سرحدی جھڑپوں،پاکستان کی تازہ حملہ آوری اور دوسری جانب امریکہ اور چین کی درپردہ مداخلت جیسے نازک حالات سے دوچار ہو تب وزیراعظم کی خاموشی خود ایک سوال بن جاتی ہے،ایسے میں قوم سے یہ خطاب اس امید کے ساتھ سنا گیا کہ شایداسکے ذریعے اب ان تمام اندیشوں کا ازالہ ہو مگر خطاب کے اختتام پر مزید ابہام اور تشویش جنم لے چکی تھی،6اور 7 اپریل کو جس آپریشن سندور کو عسکری کامیابی قرار دے کر اسے بی جے پی کی انتخابی مہم کا محور بنانے کی کوشش کی گئی وہی آپریشن ہفتہ 11 مئی کی شام جنگ بندی کے مبہم اعلان پر منتج ہوا،اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز یہ کہ 12 مئی کو مودی کے خطاب سے قبل امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جنگ بندی کا کریڈٹ لیتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی ثالثی کا نتیجہ ہے جبکہ ہندوستان کی دیرینہ خارجہ پالیسی یہ رہی ہے کہ کشمیری یا ہند پاک تنازع میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت قابل قبول نہیں ہے۔
ایسے میں قوم بجا طور پر یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ اگر ہندوستان نے فیصلہ کن عسکری برتری حاصل کی جیسا کہ مودی جی نے دعوی کیا تو پھر اس قدر عجلت میں جنگ بندی پر کیوں آمادہ ہونا پڑا ؟ وزیراعظم کے خطاب میں اس کی کوئی ٹھوس وضاحت نہیں دی گئی،انہوں نے نہ امریکہ کا نام لیا نہ ٹرمپ کے بیانات کو رد کیا اور نہ ہی یہ بتایا کہ پاکستان کی حالیہ در اندازیوں کے بعد ہندوستان کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ اگرچہ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ جنگ کا وقت نہیں ہے،آج دہشت گردی کا وقت بھی نہیں ہے مگر جس لہجے میں یہ بات کہی گئی وہ نہ صرف غیر یقینی اور دفاعی تھا بلکہ عالمی برادری کو کوئی مضبوط پیغام دینے میں بھی ناکام رہا،حقیقت یہ ہے کہ جب دشمن ملک براہ راست حملہ کرے اور اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی طاقتیں تماشائی بنی ہوں تب محض الفاظ کافی نہیں ہوتے ایسے میں عمل کی گھنٹی بجنی چاہیے،مزید ستم یہ کہ وزیراعظم نے پہلگام میں 22 اپریل کو ہوئے دہشت گردانہ حملے کے باوجود پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے سے گریز کیا،ایک طرف دہشت گردی کو قومی یکجہتی کا امتحان بتایا جا رہا ہے تو دوسری طرف عوامی نمائندوں کو اعتماد میں لینے سے اعتراض کیا جا رہا ہے،یہ طرز عمل جمہوری نظام کے شفافیت کی نفی کرتی ہے،بی جے پی داخلی سیاست میں اس فوجی کاروائی کو انتخابی ہتھیار بنانے کی تیاری کررہی ہے اوراسکےلئے 10 دن کی ترنگا یاترا بی جے پی کے وزراء کی ہنگامی میٹنگز اور میڈیا پر مسلسل بیانیہ سازی اس بات کا ثبوت ہیں کہ حکومت جنگ جیسے نازک موقع پر بھی قومی مفاد کے بجائے جماعت کو فوقیت دینے کی روش سے باز نہیں آئی ہے،فوج کی قربانیاں اور عسکری کامیابیاں کسی سیاسی جماعت کا انتخابی اثاثہ نہیں بلکہ پورے ملک کا فخر ہیں اور انہیں ووٹ بٹورنے کی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنا شرمناک سیاسی تنزلی کی علامت ہے، ایئر مارشل اے بھارتی کا یہ بیان کہ ہم ابھی بھی حالت جنگ میں ہیں نقصان اس کا ایک حصہ ہے۔اگرچہ یہ فوجی نقطہ نظر سے درست ہو سکتا ہے لیکن اس کا سیاسی ترجمہ یہ ہے کہ اصل تصویر ابھی پوری قوم سے چھپائی جا رہی ہے،رافیل طیارے کے نقصان، پاکستانی حملوں کی تازگی اور عالمی ثالثی کی موجودگی،ان سب پر خاموشی دراصل عوامی اعتماد کو کمزور کررہی ہے،اپنے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ ہندوستان نے میڈ ان انڈیا ہتھیاروں کی کامیابی دیکھی ہے،سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ہم نے عسکری محاذ پر سبقت حاصل کی ہے تو پاکستان کی ہٹ دھرمی کیوں ختم نہیں ہو رہی ہے؟اور اگر سفارتی محاذ پر ہم مضبوط ہوتے تو کیا امریکہ ہمیں تجارتی بندش کی دھمکی دیتا؟ کیا چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتا؟ کیا ایلون مسک جیسے تجارتی مفاد رکھنے والے افراد پاکستانی بیانیے کی توثیق کرتے؟ وزیراعظم کے خطاب میں اتحاد ہی سب سے بڑی طاقت ہے جیسی خوبصورت باتیں اگرچہ سامعین کو وقتی سکون ضرور دیتی ہیں مگر حقیقت میں ان الفاظ کا وزن تبھی محسوس ہوگا جب سیاسی وابستگیوں سے بلند ہو کر قومی مفاد،سفارتی وقار اور جمہوری صداقت کو اہمیت دی جائے،اگر واقعی ہندوستان کو عالمی سطح پر ایک باوقار خود مختار اور طاقتور ملک کے طور پر کھڑا کرنا ہے تو صرف فوجی قوت نہیں بلکہ سفارتی بلوغت،داخلی یکجہتی اور سیاسی سچائی بھی ناگزیر ہے ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ قوم صرف بندوق سے نہیں،سچائی تدبر اور دیانت سے بھی سربلند ہوتی ہیں اور جب رہبر ہی تذبذب کا شکار ہو جائے تو قافلہ منزل تک نہیں پاتا بلکہ مزیدگرداب میں پھنستا چلا جاتا ہے،وقت آگیا ہے کہ ہندوستان محض ہتھیاروں پر ناز کرنے کے بجائے عقل و حکمت کے ساتھ اپنی سمت کا تعین کرے ورنہ تاریخ کے صفحات پر سفارتی پسپائی کی یہ داستان قوموں کے لئے کسی عبرت سے کم نہیں ہوگی۔
اپنے خطاب میں وزیراعظم نے زیادہ تر وہی باتیں کہی جن کی ڈی جی ایم او پہلے ہی تفصیل سے وضاحت کر چکے ہیں،لیکن اصل سوال اس معاملے میں امریکہ کے ثالث بننے کی کوشش سے جڑا ہے جنگ بندی سے قبل امریکی صدر نے جو اعلان کیا یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آئی،اسی طرح وزیراعظم کے قوم سے خطاب سے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی امریکہ نے کرائی، کاروبار اور دیگر بہت سے مسائل بھی سامنے آئے،اس کے بعد سے یہ سوال پیدا ہوا کہ امریکی دباؤ ہم نے مانا کیوں؟ اس موقع پر اپوزیشن جماعتیں حکومت کے ساتھ کھڑی رہی،ہماری بہادر فوج نے دہشت گردوں کے کئی ٹھکانوں کو اس طرح تباہ کیا کہ پاکستان کے وجود پر خطرہ منڈلانے لگا لیکن ہماری سفارت کاری اتنی کامیاب نہ ہو سکی جس کی توقع تھی،تیسرے فریق نے مداخلت کی تو اس کی ثالثی قبول کرنے سے پہلے پارلیمانی فورم پر بات چیت ہوتی یا آل پارٹیز میٹنگ ہوتی تو سوال پیدا ہی نہیں ہوتے،لیکن باتیں اتنی ہی نہیں ہیں جنگ کے دوران پاکستان کا آئی ایم ایف سے خطیر رقم حاصل کرنا بھی سفارتی ناکامی ہی ہے،ایسے وقت میں جب تمام پارٹیاں،تمام نظریات 140 کروڑ لوگ حکومت ہند کے ساتھ کھڑے تھے تو پردے کے پیچھے بہت کچھ ہورہا تھا، بہتر ہوتا کہ پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلا کر فوجیوں کے حوصلے بلند کرنے کے ساتھ پاکستان کے خلاف قرارداد منظور کی جاتی،کیونکہ ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے اس سے پورے ملک میں ایک اچھا پیغام جاتا،اس پلیٹ فارم پر سیاست نہیں ہوتی اور تمام جماعتیں ایک آواز میں جو بھی کہتی عالمی برادری اسے غور سے سنتی۔
22 اپریل 2025 کو پہلگام واقعے کے بعد پورے ملک میں پھیلنے والا عوامی غصہ کسی حد تک کم تو ہوا لیکن انہیں ابھی بھی اطمینان نہیں ہے، کیونکہ اس کی متوقع جوابی کاروائی نہیں ہو سکی حکومت نے بہت غور و فکر کے بعد ابتدائی اقدامات اٹھائے اور کئی دیگر اجلاسوں کے ساتھ دو آل پارٹی میٹنگ بھی بلائی جس میں وزیراعظم نے شرکت نہیں کی،جب ملک میں سول سکیورٹی کے لئے مارک ڈرل کیا گیا تو لوگوں کو محسوس ہوا کہ پاکستان کو اب قرارا سبق ملے گا،یہی نہیں پاکستان کے 16 چینل اور کئی یوٹیوبرز کو بھی کاروائی کا سامنا کرنا پڑا،دریائے سندھ کا پانی روکنے کا فیصلہ کیا گیا جو 1965 اور 1971 میں بھی نہیں کیا گیا تھا،لیکن اس پورے واقعے کے اختتام کے بعد یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں کو امریکہ کے ساتھ سخت الفاظ میں بات چیت کرنے کی ضرورت ہے،ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے ہندوستان کو کئی موقعے پر کھٹے،میٹھے تجربات ہوئے ہیں،امریکہ ماضی میں پاکستان کا سب سے بڑا مددگار رہا ہے،ہندوستان نے جب بھی فوجی تیاری میں کچھ ٹھوس کرنے کی کوشش کی تو امریکہ نے اسکی مخالفت کی،اندرا گاندھی نے جب 1974 میں پہلا ایٹمی تجربہ کرایا تو مخالفت کی،1971 کی جنگ کی مخالفت کی،اب وہ ہندوستان کو اپنی کالونی بنانے کا سوچ رہے ہیں ایسی باتیں ہورہی ہیں،اس بار ہندوستانی فوج نے پاکستانی دہشت گردی کے نظام کو اسٹک ایئر سٹرائک کے ساتھ ایسا ہلا کر رکھ دیا تھا کہ پاکستان کو اپنی پارلیمنٹ کا استعمال ہندوستان کو غلط ثابت کرنے کے لئے کرنا پڑا،تا ہم اس پلیٹ فارم سے ہندوستان کے خلاف غلط معلومات پھیلائی گئی پھر یہ باتیں ہوئی کہ ہندوستان کو پی پی او کے کو اپنے قبضے میں لینے کے ساتھ بلوچستان کو آزاد کرا کر آگے بات چیت پر رضامند ہونا تھا ایسی تاریخ رقم کرنے کا موقع آگیا تھا، کیونکہ حالات سازگار تھے،لیکن جنگ بندی سے پہلے آرمی چیف بھی حیران نظر آئے، کارگل جنگ کے دوران آرمی چیف رہے جنرل وی پی ملک نے کہا کہ ہمیں فائدہ ہوا یا نہیں یہ سوال ہم نے مستقبل کی تاریخ پر چھوڑ دیا ہے۔
ملک کی تاریخ میں اب تک کے سب سے مشکل چینی حملے کے دوران پارلیمنٹ میں 8 دنوں تک جاری بحث میں 162 ارکان پارلیمنٹ نے حصہ لیا تھا اور متفقہ طور پر پنڈت نہرو کی طرف سے پیش کردہ جس قرارداد کو منظور کیا گیا وہ ہندوستانی تاریخ کی ایک اہم دستاویز ہے،یہ موقع اس بار بھی ہاتھ آیاتھا، لیکن واقعات بہت تیزی سے رونما ہوتے گئے،راجیہ سبھا میں قائد حزب اختلاف ملک ارجن کھڑگے اور لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی کے ذریعے خصوصی اجلاس کے مطالبے پر حکومت نے ابھی تک کوئی رد عمل کا اظہار نہیں کیا ہے،سب سے زیادہ سوالات اس تعلق سے ہیں کہ ہندوستان سے پہلے واشنگٹن نے اس بات کا یعنی جنگ بندی کا اعلان کیسے کر دیا؟ جسے پاکستانی اخبارات نے اپنی فتح کی شکل دے دی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 1971 میں ہندوستان عالمی سطح پر الگ تھلگ تھا پھر بھی اس نے جو چاہا کیا، 1999میں کارگل کے واقعے میں اٹل جی نے پوری اپوزیشن کو ساتھ لے کر پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا تھا یہی نہیں،اندرا گاندھی نے جب آپریشن میگھ دوت چلا کر سیاچین کی سرزمین پر قبضہ کیا تو چین اور پاکستان صرف شور مچاتے رہ گئے اور کچھ نہیں کرسکے۔
دوسری طرف کانگریس سمیت مختلف پارٹیوں کا حکومت پر حملہ جاری ہے،عام آدمی پارٹی کے سینئر قائد اور دہلی کے سابق ڈپٹی چیف منسٹر منیش سسوڈیا نے مرکز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اچانک جنگ بندی کے فیصلے کے پس منظر میں پیدا ہونے والے سوالات کا جواب دے،انھوں نے آپریشن سندور کے تحت دہشت گردوں کے خلاف مسلح افواج کی کاروائی کو سراہتے ہوئے کہا ہےکہ جب ملک کے عوام حکومت کے ساتھ کھڑے تھے اس وقت جنگ بندی کیوں کی گئی؟ منیش سسوڈیا نے مزید کہا کہ آپریشن سندور کے بعد ہماری فوج نے پاکستان کی شرانگیزی کا بھرپور جواب دیا ۔
ہماری فورسز اس وقت حربی برتری حاصل کر چکی تھی،تمام سیاسی جماعتیں حکومت کے ساتھ متحد تھی لیکن عین اس وقت اچانک جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا،اس فیصلے کے بعد عوام کے ذہنوں میں کئی طرح کے سوالات اور شکوک پیدا ہو گئے،انہوں نے کہا جب کل وزیراعظم نے قوم سے خطاب کیا تو پورے ملک کو امید تھی کہ وہ اچانک ہونے والے جنگ بندی کے فیصلے پر کچھ وضاحت پیش کریں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا،جب خود حکومت پاکستان کو دہشت گرد ریاست تسلیم کرتی ہے تو اچانک جنگ بندی کیوں کی گئی؟ ہمارے پاس حربی سبقت تھی،پاکستان نے جنگ بندی کی درخواست کی تھی اور ہم نے مان لی،انھوں نے مزید کہا کہ جب پاکستان ہماری فضائی کاروائیوں کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں تھا اور وہ جنگ بندی کی درخواست کر رہا تھا تو پھر حکومت نے پہلگام حملے کے ذمہ دار دہشت گردوں کی حوالگی کا مطالبہ کیوں نہیں کیا؟ انہوں نے ایک اور سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھارتی حکام کے اعلان سے آدھا گھنٹہ پہلے جنگ بندی کا اعلان کر دیا،بھارت اور پاکستان کے درمیان 10 مئی کو ایک مفاہمت طے پائی جس کے تحت زمین فضا اور سمندر پر ہر قسم کی فوجی کاروائیاں فوری طور پر روکنے پر اتفاق ہوا یہ فیصلہ دونوں ملکوں کے درمیان چار روزہ ڈرون اور میزائل حملوں کے بعد لیا گیا جو مکمل جنگ کے قریب لے گئے تھے۔
اسی طرح آر جے ڈی سے راجیہ سبھا کے رکن منوج جھانے ایک بیان دیتے ہوئے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ جنگ بندی میں تیسرے ملک خاص طور پر امریکہ اور ڈونالڈ ٹرمپ کے کردار پر سنگین سوالات کھڑے کیے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے کا مطالبہ بھی دہرایا،منوج جھا نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی پورے ملک کے وزیراعظم ہیں اور پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد ملک کی سوچ متحد تھی جب آپریشن سندور کا آغاز ہوا تو تمام اہل وطن ایک سوچ اورایک فکر کے ساتھ حکومت کے ساتھ کھڑے تھے،پریس بریفنگ میں دنیا بھر کو یہی پیغام دیا جا رہا تھا کہ ملک ایک ہے،تاہم انہوں نے کہا کہ کچھ معاملات ایسے ہیں جو تشویش ناک ہیں اگر ہم نے جنگ بندی کا فیصلہ کیا تو امریکہ کو اس کی اطلاع ہم سے پہلے کیسے مل گئی؟ انہوں نے مزید یاد دلایا کہ امریکہ کی جانب سے اگلے دن کشمیر پر ایک بے بنیاد ٹویٹ بھی کیا گیا جس نے صورتحال کو مزید الجھا دیا منوج جھانے اس پر بھی اعتراض کیا کہ وزیراعظم نریندر مودی کے قوم سے خطاب سے قبل ہی امریکی صدر نے تجارتی بنیاد پر جنگ روکنے کی بات کی،انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال میں وزیراعظم کو پہلے عوام کو پیغام دینا چاہیے تھا تاکہ قیادت کے تاثر پر کوئی سوال نہ اٹھتا،اپوزیشن کی جانب سے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے کے مطالبے پر بات کرتے ہوئے پروفیسر منوج جھا نے نیشنل کانگریس پارٹی کے صدر شرد پوار کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شرد پوار نے اسے ایک حساس مسئلہ قرار دیتے ہوئے سبھی پارٹیوں کو تجاویز دینے کے لئے مل بیٹھنے کو کہا تھا،جھا نے زور دے کر کہا کہ مجھے یاد ہے کہ 1962میں جب چین کے ساتھ جنگ ہو رہی تھی تو پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلایا گیا تھا، انہوں نے کہا کہ اگر اس وقت یہ ممکن تھا تو آج یہ کیوں ممکن نہیں ہے؟آج بھی یہ ہو سکتا ہے،ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا مطالبہ صرف حکومت پر تنقید کرنے کے لیے نہیں بلکہ دنیا کو یہ پیغام دینے کے لیے ہے کہ ہندوستان میں سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن ملک کی سالمیت اور خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا ۔
اچانک جنگ بندی کے معاملے پر ملک میں سیاست گرم ہو گئی ہے، کانگرس کے سینئر لیڈر اور 36 گڑھ کے سابق چیف منسٹر بھوپیش بگھیل نے حکومت سے سوال کیا کہ آیا مودی حکومت نے امریکی دباؤ کے زیر اثر اپنی پالیسی میں تبدیلی کی ہے ؟نئی دہلی میں بگھیل نے کہا کہ کانگریس پارٹی فوج کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے، جب بھی بحران آیا کانگرس نے سیاست کے بجائے ملک کے مفاد کو آگے رکھا،انہوں نے مودی حکومت کو سفارتی ناکامی کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ اس کی وجہ سے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ہند پاک معاملات میں اپنی ثالثی کی پیشکش کی،صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ جموں کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کرنے کو تیار ہیں اور اس سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ ہندوستان کو سفارتی سطح پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا،انھوں نے کہا کہ امریکی صدر کا کشمیر کے مسئلے پر ہند پاک کے درمیان ثالثی کرنے کا بیان مایوس کن ہے،سابق وزیراعظم آنجہانی اندرا گاندھی نے ہمیشہ تیسرے ممالک کی طرف سے ہند پاک معاملات میں مداخلت کرنے کو رد کیا اور اس کی زبردست مخالفت کی، بگھیل نے وزیراعظم سے کہا کہ وہ جلد از جلد پارلیمنٹ کا اجلاس بلائیں تاکہ وہاں آپریشن سندور اور پہلگام دہشت گردانہ واقعے پر تفصیلی بحث کی جا سکے، پہلگام حملے کے بعد ملک میں پیدا ہونے والے بحران کے معاملے پر ہم دہشت گردی کو کچلنے کے لیے ہر معاملے پر حکومت کی حمایت کرتے رہے ہیں لیکن امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا پاکستان کے ساتھ تنازع کے درمیان اچانک جنگ بندی معاہدے کا اعلان ہندوستان کی سفارتی ناکامی ہے کانگرس لیڈر نے سوال کیا کہ امریکی صدر نے تنازعہ کے درمیان اچانک جنگ بندی کا اعلان کیا کیا یہ حکومت ہند کی سفارتی ناکامی نہیں ہے؟ کیا ہندوستان نے تیسرے فریق کی مداخلت کو قبول کر لیا ہے؟ یا ہم نے ٹرمپ کے بیان سے ثالثی کو قبول کر لیا ہے؟ اور کیا شملہ معاہدہ اب کلعدم ہو گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ملک ٹرمپ کے اعلان سے خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہا ہے اور ہم اس اعلان سے شرمندہ ہیں اس سے ہمارا سر جھکا ہے اس طرح کے کئی سوالات ہیں اور اسی لیے کانگریس کا مطالبہ ہے کہ حکومت اس معاملے پر کل جماعتی میٹنگ اور پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلائے،تاکہ پوری صورتحال واضح ہو سکے ہم حکومت سے اس پر شفافیت کا مطالبہ کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ اس دوران کانگرس نے کوئی سیاست نہیں کی اور نہ صرف ہم نے حکومت کا ساتھ دیا بلکہ بحران کی اس گھڑی میں پارٹی نے اپنے تمام سیاسی پروگرام منسوخ کر دئے" سنودھان بچاؤ" ریلی جیسے اہم پروگرام کو بھی ملتوی کر دیا گیا تھا کہ ملک بھر میں اتحاد کا پیغام جائے،ہم نے جئے ہند یاترا نکالی تاکہ فوج کا حوصلہ بلند ہو اور لوگ دہشت گردی کے خلاف متحد ہوں، ہم نے حکومت سے کہا کہ کتنا بھی بڑا بحران آئے کانگرس آپ کے ساتھ ہے لیکن جب پورا ملک فوج کے ساتھ کھڑا تھا تو بی جے پی لیڈر حکومت کا موازنہ کر کے اس بحران کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کر رہے تھے،ان کے لیڈر فوج کی بہادری کو اپنی حصولیابی قرار دے رہے تھے،سوال یہ ہے کہ کیا فوج کی قربانی کو انتخابی بیان بازی میں استعمال کرنا مناسب ہے؟ ایک لیڈر نے یہاں تک کہا کہ کانگریس کی حکومت میں دہشت گردوں کو معاف کردیا جاتا تھا اور نریندر مودی نے سبق سکھایا، یہ سراسر جھوٹ ہے،ہمارا واضح پیغام ہے کہ ہندوستان کے اتحاد سے چھیڑ چھاڑ برداشت نہیں کی جائے گی۔ ایک طرف کانگریس نے مسلح افواج کی بہادری کو سلام کرنے اور دہشتگردانہ حملے کے متاثرین کو خراج عقیدت پیش کرنے کی مہم میں ملک بھر میں جے ہند یاترا نکالی دوسری طرف بی جے پی نے قومی بحران کے وقت سیاست کی لیکن کانگریس پارٹی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے کیونکہ ہم قومی مفاد کی بات کرتے ہیں، فوجیوں کے عزم اور حوصلے کی تعریف کرتے ہوئے بگھیل نے کہا کہ پہلگام حملے کے بعد ہماری فوج نے عزم اور حوصلے کے ساتھ دشمنوں کو منہ توڑ جواب دیا جو پوری قوم کے لیے قابل فخر لمحہ تھا ہمارے فوجیوں نے کئی جنگوں میں ہندوستان کی سالمیت کو بچایا ہے۔ 1971 کے بعد اندرا گاندھی نے دنیا کو دکھا دیا تھا کہ ہندوستان کسی کے سامنے جھکنے والا نہیں ہے آج بھی ہماری فوج اسی جذبے کے ساتھ سرحد پر ڈٹی ہوئی ہے،پارٹی ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے،جب بھی ملک پر بحران آیا کانگریس نے سیاست کو پیچھے چھوڑ کر قومی مفاد کو مقدم رکھا سال 1965 میں لال بہادر شاستری نے جے جوان جے کسان کا نعرہ دے کر ملک کو ایک دھاگے میں باندھا تھا،جبکہ 1971 میں اندرا گاندھی نے امریکہ کے دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کو دھول چٹا دی تھی آج بھی ہمارا وہی عزم ہے دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں سیاست نہیں قوم پرستی کی ضرورت ہے۔
کانگریس نے مزید کہا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے پہلگام واقعہ اور اس کے بعد کی کاروائی پر پیر کو قوم سے خطاب کیا لیکن امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے خطرناک بیان پر خاموشی اختیار کر کے سب کو مایوس کر دیا ہے، کانگریس کے سینئر لیڈر اشوک گہلوت نے منگل کو پارٹی ہیڈ کوارٹر دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا پاکستان کے ساتھ تنازعہ شروع ہوا جس میں ہماری بہادر فوج پاکستان کو تباہ کر رہی تھی لیکن فوجی کاروائی روکنے کے اچانک اعلان نے سب کو چونکا دیا اور دہشت گردی کو پناہ دینے والے پاکستان کو کچلنے کا سنہرا موقع گنوا دیا گیا،ہمارے پاس پاکستان کی دہشت گردی کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا سنہری موقع تھا انہوں نے کہا کہ اس میں سب سے چونکانے والی بات یہ تھی کہ ٹرمپ نے سوشل میڈیا ایکس پر فوجی کاروائی روکنے کا اعلان کیا اور بعد میں کہا کہ انہوں نے تجارت کا حوالہ دے کر ہندوستان اور پاکستان کو فوجی کاروائی روکنے پر تیار کیا، اب ملک کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اسے خفیہ کیوں رکھا گیا ؟جبکہ ہماری فوج نے بہت اچھا کام کیا اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور پوری دنیا میں اس کی تعریف ہوئی، پہلگام واقعے سے ملک کا ہر کنبہ غمزدہ ہے اور ایسے میں فوج نے حملہ کر کے اس واقعے میں ملوث سو دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا کانگرس لیڈر نے کہا کہ جب فوج کاروائی کر رہی تھی اچانک ٹرمپ درمیان میں آئے اور انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان فوجی کاروائی روکنے کے بارے میں پوسٹ کیا، جس نے سب کو چونکا دیا،امریکہ نے پہلے بھی ہندوستان پر دباؤ ڈالا لیکن ہم نے کبھی سر نہیں جھکایا اور پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا، شملہ معاہدے کے دوران بھی ہم نے کسی دوسرے کو مداخلت کی اجازت نہیں دی تھی لیکن اب جس طرح سے ٹرمپ مداخلت کر رہے ہیں مودی اور ان کی حکومت کو اس کا جواب دینا چاہیے،سوال یہ ہے کہ حکومت ٹرمپ کے بیانات پر وضاحت کیوں نہیں دے رہی ہے؟ انھوں نے امریکی صدر کے پوسٹ پر شدید حملہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کون سے ٹھیکدار بن گئے یا ہماری خاموشی نے ان کے حوصلے بلند کیے؟ جس کی وجہ سے وہ جنگ بندی کا اعلان کر رہے ہیں؟ اب ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر کو بھی حل کریں گے جبکہ اب تک ہندوستان کی پالیسی صرف دو طرفہ رہی ہے، ٹرمپ مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ انتہائی سنجیدہ ہے،ادھر وزیراعظم کا خطاب ہونے والا تھا اس سے پہلے ٹرمپ نے اعلان کر دیا کہ انہوں نے ہندوستان اور پاکستان سے کہا ہے کہ اگر وہ تجارت کرنا چاہتے ہیں تو انہیں جنگ بندی کا اعلان کرنا ہوگا،وزیراعظم مودی کو ان تمام سوالوں کا جواب دینا چاہیے گہلوت نے کہا کہ فوجی کاروائی روکنے کے اچانک اعلان سے ہم نے وہ سنہرا موقع گنوا دیا جو ہمارے ہاتھ میں تھا، ہمیں پاکستان میں ایسی صورتحال پیدا کرنی چاہیے تھی کہ وہ دہشت گردی کا کوئی واقعہ انجام دینے کے قابل نہ رہتا لیکن اچانک جنگ بندی ہو گئی ٹرمپ کے اعلان کے بعد پورا ملک کے صدمے میں ہے کہ آخر یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیونکہ پاکستان جنگ بندی کے بعد بھی حملے کرتا رہا ہے ملک جاننا چاہتا ہے کہ مودی پر کس قسم کا دباؤ ہے کہ وہ کوئی وضاحت نہیں دے رہے ہیں وزیراعظم کے خطاب سے امید تھی کہ وہ ان نکات کا جواب دیں گے لیکن انہوں نے کچھ نہیں کیا انہوں نے کہا کہ 11 سال میں پہلی بار میں نے تجربہ کیا کہ حکمران جماعت اور اپوزیشن ایک ساتھ ہیں اتنے مشکل وقت میں ہم سب متحد تھے اس سے پوری دنیا کو پیغام دیا گیا کہ ہم ایک ہیں راہل گاندھی جی نے کہا کہ اس مشکل وقت میں پوری اپوزیشن حکومت کے ساتھ کھڑی ہے دہشت گردی کے خلاف کاروائی میں پوری اپوزیشن حکومت کے ساتھ ہے پھر مودی تمام پارٹیوں کی میٹنگ میں کیوں شریک نہیں ہوئے؟ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے پر پارلیمنٹ کا اجلاس بھی بلائے تاکہ اس معاملے پر بات ہو اور چیزیں ریکارڈ پر رہیں اور پورے ملک کو معلوم ہو کہ حکومت کی پالیسی کیا ہے، کانگریس لیڈر نے آپریشن سندور کو عارضی طور پر معطل کرنے کے بارے میں وزیراعظم کے بیان پر سوال اٹھایا اور کہا کہ انہوں نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا کہ فوجی کاروائی عارضی طور پر روکی جاتی ہے، اگر آپریشن سندور امریکی دباؤ پر ملتوی کیا گیا ہے تو یہ باتیں واضح ہونی چاہیے انہوں نے کہا کہ اس حملے میں ایک بات اور نظر ائی کہ آذربائجان اور ترکی منہ کھل کر پاکستان کی حمایت میں آئے لیکن پہلگام میں ہونے والی ناانصافی کے بعد بھی کوئی ملک کھل کر ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہوا،اس کا جواب حکومت کو دینا ہوگا یہ حکومت اخلاقی اختیار اور ہمت دونوں کھو چکی ہے ہمیں پاکستان میں دہشت گردی کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا موقع ملا تھا، اگر جنگ بندی کرنی ہی تھی تو بات چیت وزیراعظم یا وزیر خارجہ کی سطح پر ہونی چاہیے تھی جس میں واضح طور پر کہا جانا چاہیے تھا کہ حکومت پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے اڈوں کو پنپنے نہیں دے گی ۔
کانگرس نے مزید سوال کیا کہ کیا نریندر مودی حکومت پہلگام دہشت گرد حملے کے بارے میں وہ اقدام کرے گی جو واجپائی حکومت نے کارگل جنگ کے بعد جائزہ کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے کیا تھا کانگریس جنرل سیکریٹری اورمواصلات کےانچارج جےرام رمیش نے وزیر خارجہ ایس جے شنکر پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ عام طور پر بہت زیادہ بولنے والے وزیر امریکی مصالحت کے بارے میں خاموش ہیں جےرام رمیش نے کہا کہ امریکہ کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکوروپیو کے ساتھ ہمارے وزیر خارجہ نے بہت وقت گزارا ہے وہ 21 جنوری 2025 کو روبیو سے ملنے والے پہلے وزیر تھے، عام طور پر وہ بہت بولتے ہیں لیکن امریکی مصالحت اور غیر جانبدار مقام پر ہند پاک بات چیت کے بارے میں روبیو کے بیان پر وہ خاموش ہیں،قبل ازیں رمیش نے کہا کہ انکی پارٹی، وزیراعظم نریندر مودی کی صدارت میں کل جماعتی اجلاس اور پارلیمنٹ کے خصوصی سیشن کا مطالبہ کر رہی ہے، واشنگٹن ڈی سی سے آنے والے بیانات کی وجہ سے کل جماعتی اجلاس اور پارلیمنٹ سیشن کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، انہوں نے کہا کہ کارگل جنگ ختم ہونے کے تین دن بعد واجپائی حکومت نے 29 جولائی 1999 کو کارگل جائزہ کمیٹی تشکیل دی تھی اس کی رپورٹ کو 23 فروری 2000 کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا جس کمیٹی کی صدارت ہندوستان کے اسٹرا ٹیجک امور کے ماہر کے سبرا منیم سوامی نے کی تھی،جن کے فرزند اب ہندوستان کے وزیر خارجہ ہیں کیا مودی حکومت پہلگام کے بارے میں ایسا اقدام کرے گی انہوں نے کہا کہ واشنگٹن ڈی سی سے آنے والے بیانات کے پیش نظر کانگرس کے مطالبات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ایک دن قبل ٹرمپ نے اپنے اس دعوے کو دہرایا تھا کہ ان کی حکومت نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان نیو کلیر تصادم کو روکا ہے، انہوں نے کہا جنوبی ایشیا کے پڑوسیوں سے یہ بھی کہا کہ اگر وہ لڑائی روک دیں تو وہ ان کے ساتھ بہت زیادہ تجارت کریں گے ٹرمپ نے کہا کہ میری حکومت نے ہفتے کو مکمل اور فوری جنگ بندی میں مدد کی ہے۔
کرناٹک کے وزیر پریانک کھڑگے نے پیر کو کہا کہ جہاں ہندوستانی فوجیوں نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو کامیابی کے ساتھ تباہ کر دیا ہے، مرکزی حکومت کے جنگ بندی کے اعلان کے فیصلے سے مسلح افواج اور ہندوستانی شہریوں دونوں کو مایوسی ہوئی ہے گلبرگہ شہر میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کھڑگے نے کہا پاکستان ناقابل بھروسہ ملک ہے،ہماری فوجیوں نے ہمارے شہریوں پر حملوں کے بعد منتخب نشانات ہم پر حملے کیے ہیں اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا ہےتاہم اب جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا ہے یہ فیصلہ کس نے کیا ؟یہ کس معیار کے تحت کیا گیا؟ کیا اس پر کاروائی کی جائے گی ؟ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور ہندوستان کا دو طرفہ معاملہ ہے لیکن اب امریکی مداخلت کی وجہ سے اسے بین الاقوامی شکل دی گئی ہے جنگ بندی کا اعلان کرنے والا امریکی ٹویٹ کے مندرجات دیکھے ہیں انہوں نے کامن سینس کی اصطلاح استعمال کی اور اسے ٹویٹ کیا جیسے ہندوستان کو مشورہ دے رہے ہیں۔ وزیراعظم، وزیر خارجہ اور مشیر قومی سلامتی اس بارے میں کیوں خاموش ہیں؟ وہ لوگوں کو جنگ بندی کی وضاحت کیوں نہیں کر رہے ہیں؟ پریانک کھڑ گئے نے حکومت کی خارجہ پالیسی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی خارجہ پالیسی کے مضبوط ہونے کے لیے وزیراعظم کے لیے صرف غیر ملکی رہنماؤں کو گلے لگانا کافی نہیں ہےبلکہ بامعنی بات چیت ہونی چاہیے امریکہ نے دہشت گردی کی کاروائی کی مذمت نہیں کی ہے،اس دوران چین اور ترکی نے پاکستان کی حمایت کا اظہار کیا ہے، علاوہ ازیں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض دینے کا اعلان کیا ہے اس کا مطلب ہے کہ ہندوستانی حکومت بین الاقوامی برادری کو دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے ملک کی حمایت نہ کرنے پر آمادہ کرنے میں ناکام رہی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کیا مودی حکومت اپوزیشن کے سنگین سوالات پر سنجیدگی سے غور کرے گی اور کیا پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلائے گی تاکہ ملک کو اور دنیا کو اسکا صحیح علم ہوسکے یاپھر پلوامہ کی طرح اسے خفیہ رکھ کر الیکشن اور ووٹ لینے کے لئے استعمال کیا جائے گا؟
کالم نگار معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں
sarfarazahmedqasmi@gmail.com
ادارہ کا مضمون نگار کی راۓ سے متفق ہونا ضروری نہیں
Post a Comment